ثقافتی مادیت - ایک ادبی و نظریاتی تعارف

ثقافتی مادیت — ایک ادبی و نظریاتی تعارف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ثقافتی مادیت بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں جنم لینے والی ایک اہم اور انقلابی ادبی تحریک ہے، جو 1980ء کے اوائل میں نیو ہسٹوریسزم کے ہمراہ اُبھرتی دیکھائی دیتی ہے۔ یہ دونوں نظریاتی رجحانات ابتدائی جدید ادب کے مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ ادب محض فن یا تخلیق نہیں بلکہ تاریخی، سماجی اور سیاسی عمل کا آئینہ دار ہے۔
یہ اصطلاح ریمونڈ ولیمز (Raymond Williams) نے وضع کی، جنہوں نے اسے مارکسی فکر اور بائیں بازو کی ثقافتی تھیوری کے امتزاج کے طور پر پیش کیا۔ ان کے نزدیک ثقافت محض اقدار یا رسمیات کا نام نہیں، بلکہ ایک پیداواری قوت ہے جو سماج کے ذرائع پیداوار کا حصہ ہے۔
ولیمز نے کلچر میں تین طرح کے عناصر کی نشاندہی کی — باقیاتی ، ابھرتے ہوئے اور مخالف جو سماج کی اندرونی فکری و نظریاتی کشمکش کو ظاہر کرتے ہیں۔
ثقافتی مادیت کے علمبردار — ہر برٹ مارکوزے ، انتونیو گرامشی اور دیگر نیو مارکسی مفکرین — کے نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے، روایتی مارکسی تنقید کو وسعت دیتے ہیں۔ وہ طبقاتی تجزیے کے ساتھ ساتھ حاشیہ زدہ طبقات ، یعنی عورت، مزدور، اقلیت اور محکوم طبقوں کی ثقافتی و ادبی نمائندگی پر بھی توجہ دیتے ہیں۔
ادبی تنقید کے میدان میں ثقافتی مادیت اس بات کا مطالعہ کرتی ہے کہ سماج میں موجود غالب قوتیں مثلاً ریاست، کلیسا یا تعلیمی ادارے — کس طرح کلاسیکی متون (جیسے شیکسپیئر اور جین آسٹن کے اعمال) کو اپنے نظریاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، تاکہ مخصوص سماجی و سیاسی اقدار کو عوامی شعور پر نقش کیا جا سکے۔
اس نظریے کے دو ممتاز علمبردار، جوناتھن ڈولیمور (Jonathan Dollimore) اور ایلن سنفیلڈ (Alan Sinfield)، نے اپنی تصنیف “پولیٹیکل شیکسپیئر” میں ثقافتی مادیت کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ ان کے مطابق اس نظریے کے چار بنیادی اصول یہ ہیں:
1. تاریخی تناظر: متن کو اس کے تاریخی پس منظر کے ساتھ سمجھنا۔
2. باریک متنی تجزیہ: متن کی ساخت، زبان اور معنی کی گہرائی میں جانا۔
3. سیاسی وابستگی: ادبی تنقید کو سماجی و سیاسی شعور سے جوڑنا۔
4. نظریاتی طریقۂ کار: تنقید کو سائنسی و فکری بنیادوں پر استوار کرنا۔
ثقافتی مادیت کے نقاد ادب کو محض لذتِ جمال یا تخیل کا کھیل نہیں سمجھتے بلکہ اسے طاقت، نظریے اور مزاحمت کے بیانیے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ادبی متون میں موجود غالب نظریاتی زاویوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان کے اندر کہاں کہیں انحراف، مزاحمت یا بغاوت کے امکانات پوشیدہ ہیں۔
برطانوی نقاد گریہم ہولڈرنیس نے بجا طور پر ثقافتی مادیت کو "تاریخ نگاری کی سیاسی صورت" کہا ہے۔
ادبی حوالے سے دیکھا جائے تو ثقافتی مادیت نے خاص طور پر نشاۃ ثانیہ کے مطالعات میں نئے افق روشن کیے۔ روایتی ہیومنسٹ تنقید نے جن طبقات — مثلاً عورت، نوآبادیاتی اقوام، اور نچلے طبقے — کو نظر انداز کیا تھا، ثقافتی مادیت نے ان کی آواز کو مرکزیت بخشی۔
اس طرح اس نے ادب میں نمائندگی کے نئے تصورات کو متعارف کرایا اور ادب کو سماجی انصاف، نظریاتی کشمکش اور انسانی آزادی کے تناظر میں سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔
ثقافتی مادیت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ادب کو تاریخ، سیاست اور طاقت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس نظریے کے تحت ہر ادبی متن نہ صرف اپنے عہد کی فکری صورت گری کرتا ہے بلکہ اس کے اندر سماج کی طبقاتی، صنفی اور نظریاتی کشمکش کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔
ثقافتی مادیت کے بنیادی اصول اردو ادب پر بھی پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔
اردو ادب میں ترقی پسند تحریک (Progressive Writers’ Movement) اس تعلق کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ترقی پسند ادیبوں نے ادب کو سماج کی تبدیلی اور طبقاتی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا ذریعہ بنایا — یہی وہ تصور ہے جسے ثقافتی مادیت "ادب بطور پیداواری اور نظریاتی عمل" کے طور پر پیش کرتی ہے۔
فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، اور راجندر سنگھ بیدی جیسے ادیبوں نے اپنے افسانوں اور شاعری میں سماجی و معاشی ناہمواریوں، جبر، استحصال اور حاشیہ زدہ طبقوں کی نمائندگی کی، جو ثقافتی مادیت کے اس تصور سے ہم آہنگ ہے کہ ادب محض جمالیاتی تجربہ نہیں بلکہ طاقت کے ڈھانچوں کے خلاف فکری مزاحمت ہے۔
اسی طرح جدید و مابعد جدید اردو ادب میں بھی ثقافتی مادیت کی روح دیکھی جا سکتی ہے۔ انیسوی صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں لکھا جانے والا اردو ادب — خاص طور پر نسائی ادب، مابعد نوآبادیاتی ناول، اور جدید نظم — معاشرتی شناخت، صنفی مساوات، اور نظریاتی جبر کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔
یہ تمام رجحانات ثقافتی مادیت کے اس اصول سے ہم آہنگ ہیں کہ ہر متن میں ایک ہیجیمونک (غالب) اور ایک اپوزیشنل (مزاحمتی) زاویہ بیک وقت موجود ہوتا ہے۔
ادبی تنقید کے میدان میں، اگر اردو ناقدین جیسے وزیر آغا، سلیم احمد، اور فیاض احمد فیضی کی تنقیدی تحریروں کو دیکھا جائے تو وہاں بھی سماج، نظریہ اور ادب کے تعلق پر بحث ملتی ہے — جو ثقافتی مادیت کے بنیادی تنقیدی ڈھانچے سے مماثل ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ثقافتی مادیت اردو ادب کے لیے ایک موثر تنقیدی زاویہ فراہم کرتی ہے، جس کے ذریعے نہ صرف کلاسیکی متون بلکہ جدید تحریروں کو بھی تاریخی، طبقاتی، صنفی اور نظریاتی سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے۔
یہ نظریہ اردو ادب کو ایک زندہ، متحرک اور سماجی حقیقتوں سے جڑا ہوا تخلیقی عمل قرار دیتا ہے — ایسا عمل جو طاقت کے خلاف شعور، بغاوت اور تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
یوں ثقافتی مادیت نے ادب کے مطالعے کو ایک زندہ، متحرک اور فکری جدوجہد میں بدل دیا ہے، جو قاری کو نہ صرف معنی کی تلاش بلکہ سماجی شعور کی بیداری کی دعوت بھی دیتی ہے۔

 

Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 11 Articles with 3599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.