دو حکمران، حضرت سلیمانؑ اور ملکہ بلقیس کی کہانی
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
تاریخِ انسانیت کے اوراق پر کچھ نام ایسے ہیں جن کی حکمرانی صرف زمین پر نہیں بلکہ دلوں اور ذہنوں پر بھی چھائی رہی۔ انہی میں سے دو درخشاں نام ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس — دو مختلف دنیاؤں کے حکمران، مگر ایمان کی ایک ہی روشنی میں جڑے ہوئے۔
نبوت اور بادشاہت کا حسین امتزاج حضرت سلیمانؑ کو اللہ نے ایسی بادشاہت عطا کی جو کسی اور کو نہ ملی۔ ان کے تابع جنات، پرندے، ہوائیں اور انسان سب تھے۔ ان کی سلطنت بیت المقدس سے لے کر شام، اردن، عراق اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ حکومت صرف طاقت کی نہیں بلکہ عدل، علم اور روحانیت کی بنیاد پر قائم تھی۔ وہ نہ صرف ایک نبی تھے بلکہ ایک فلسفی بادشاہ بھی — جن کی عدالت میں مخلوقات کی زبانیں سمجھی جاتی تھیں۔
یمن کی رانی — عقل و حکمت کی علامت ادھر عرب کے جنوبی خطے یمن میں قومِ سبا کی حاکم ملکہ بلقیس تھیں۔ ان کا نام دولت، نظم و نسق، اور تعمیر و تجارت کا استعارہ تھا۔ ان کے دور میں سدّ مآرب تعمیر ہوا — ایک عظیم ڈیم جس نے ان کے ملک کو زراعت اور خوشحالی میں بے مثال بنا دیا۔ ان کی سلطنت حجاز سے بحرِ عرب، اور حبشہ سے عمان تک پھیلی ہوئی تھی۔ عورت کی قیادت میں ایک کامیاب، منظم اور ترقی یافتہ ریاست — یہ خود تاریخ کا انوکھا باب تھا۔
شورائی نظام — جمہوریت کی ابتدائی شکل بلقیس کی حکومت مطلق العنان بادشاہت نہیں تھی۔ وہ فیصلوں میں درباریوں سے مشورہ کرتی تھیں۔ قرآنِ مجید سورۃ النمل میں ان کے الفاظ ہیں: “اے سردارو! میرے معاملے میں مجھے مشورہ دو، میں کسی کام کا فیصلہ تمہارے مشورے کے بغیر نہیں کرتی۔” یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی حکومت شورائی نظام پر قائم تھی ایک ایسا نظام جو آج کی جمہوریت کے اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔ طاقت کے بجائے عقل، اور تلوار کے بجائے تدبر — یہی ان کی سیاست کی بنیاد تھی۔
سورج پرستی سے ربّ تک کا سفر قرآن بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے لشکر کا پرندہ ہدہد جب سبا کی خبر لایا تو بتایا کہ وہاں کی قوم سورج کی پوجا کرتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے بلقیس کو ایک خط لکھا — ایمان کی دعوت کے ساتھ۔ انہوں نے جواب میں نہ غرور دکھایا، نہ انکار کیا۔ بلکہ مشورہ کیا، سوچا، اور آخرکار خود بیت المقدس حاضر ہوئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں عقل نے ایمان سے ملاقات کی۔
شیشے کا محل — بصیرت کی کرن قرآن کے مطابق جب بلقیس حضرت سلیمانؑ کے شیشے کے فرش والے محل میں داخل ہوئیں، تو اسے پانی سمجھ کر اپنی پنڈلیاں اٹھا لیں۔ اس لمحے ان پر حقیقت آشکار ہوئی، اور ان کے دل سے غرور کی چادر ہٹ گئی۔ انہوں نے کہا: “میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، اور اب میں سلیمان کے ساتھ ربّ العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔” (سورۃ النمل: 44) یہ اعلان صرف ایک ایمان کا اقرار نہیں تھا، بلکہ ایک عقلی انقلاب تھا جہاں سورج پرست عقل، توحید کی روشنی میں منور ہو گئی۔
سلیمانؑ اور بلقیس — ایک روحانی رشتہ قرآن میں ان کی شادی کا صریح ذکر نہیں، مگر کئی اسلامی اور حبشی روایات کے مطابق حضرت سلیمانؑ نے بلقیس سے نکاح فرمایا۔ بعض روایات کے مطابق وہ کچھ عرصہ بیت المقدس میں رہیں، پھر واپس یمن گئیں اور ایمان کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہو گئیں۔ حبشہ کے شاہی خاندان نے خود کو انہی کی نسل سے منسوب کیا ایک نسبت جو آج بھی روحانی فخر کا نشان ہے۔
مذہبی، سیاسی اور انسانی سبق حضرت سلیمانؑ اور بلقیس کی داستان مذہب، سیاست اور انسانیت کے ملاپ کی روشن مثال ہے۔ سلیمانؑ کی حکومت یہ سبق دیتی ہے کہ طاقت جب وحی کے تابع ہو تو عدل قائم ہوتا ہے۔ اور بلقیس کی حکمرانی یہ سکھاتی ہے کہ عقل، علم اور مشاورت اقتدار سے زیادہ مضبوط بنیاد رکھتے ہیں۔ یہ دونوں شخصیات اپنے عہد سے آگے کی سوچ رکھنے والے حکمران تھے جنہوں نے روحانیت کو سیاست کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔
حکومت مٹ جاتی ہے پالیسی یاد رہتی ہے وقت کی گرد نے سلیمانؑ اور بلقیس کی سلطنتوں کے آثار مٹا دیے، مگر ان کی دانائی اور ایمان آج بھی زندہ ہیں۔ یہی اس کہانی کا اصل پیغام ہے ہر حکومت مٹ جاتی ہے، مگر عدل، عقل اور ایمان ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ “اقتدار کی اصل بنیاد ایمان اور بصیرت ہے، نہ کہ تخت و تاج”
|
|