نشے سے انکار، زندگی سے پیار

نشے سے انکار، زندگی سے پیار
✍🏻 : علی عباس کاظمی
14کتوبر 2025ء
کچھ دن پہلے ایک قریبی دوست پریشانی کے عالم میں میرے پاس آیا۔ چہرے پر الجھن اور خوف کے آثار نمایاں تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ اسکول سے فون آیا ہے کہ "آپ کے بچے نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے، براہ کرم والدین میٹنگ میں آئیں۔" اس کی پریشانی بجا تھی۔ میں نے کہا، "چلو، میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔" اسکول پہنچے تو انچارج صاحب نے نہایت سنجیدگی سے بتایا کہ دورانِ تلاشی بچے کے بستے سے ایک سموکنگ ڈیوائس برآمد ہوئی ہے۔ بچے نے لاعلمی کا اظہار کیا، مگر سوال یہ تھا کہ اگر وہ سچ بول رہا ہے تو یہ ڈیوائس اس کے بستے میں پہنچی کیسے؟
انچارج صاحب نے معاملہ جس وقار اور دانائی سے سنبھالا، وہ تربیت کی ایک بہترین مثال تھی۔ انہوں نے صرف ایک بچے کی نہیں، پوری کلاس کی تلاشی لی تاکہ کسی کو شرمندگی نہ ہو۔ یہ قدم محض تفتیش نہیں بلکہ ایک سبق تھا کہ عزتِ نفس کو مجروح کیے بغیر بھی اصلاح ممکن ہے۔ تاہم اصل سوال بدستور باقی تھا کہ یہ ڈیوائس وہاں پہنچی کیسے؟ جب اس کے دوستوں کے حلقے کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ کچھ بڑے لڑکوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے جو “فیشن” کے نام پر ان آلات کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ واقعہ کسی ایک گھر یا اسکول کا نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی زوال کی علامت ہے۔ تعلیم نے علم تو دیا مگر شعور نہیں، کتابیں تو دیں مگر کردار سازی کا دروازہ بند کر دیا۔ والدین بچوں کے نمبر گنتے ہیں، ان کی کارکردگی کا حساب رکھتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کن دوستوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں، ان کے چہروں پر کس لمحے اداسی چھا جاتی ہے، اور وہ کس بات پر چپ ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کے نصاب کی فکر میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ زندگی کے اصل نصاب ۔۔۔ احساس، توجہ اور محبت ۔۔۔ کو بھول گئے ہیں۔
یہی عمر وہ ہے جہاں نادانی، تجسس اور آزادی کے درمیان ایک باریک لکیر ہوتی ہے۔ اگر اس لکیر پر کوئی رہنما یا سننے والا نہ ہو تو ایک چھوٹی سی لغزش زندگی بھر کا بوجھ بن سکتی ہے۔ خاندانی جھگڑے، والدین کی مصروفیت، یا گھروں میں مسلسل تنقید ۔۔۔یہ سب بچے کے اندر سے اعتماد اور تحفظ کا احساس چھین لیتے ہیں۔ گھر جو محبت کی پناہ گاہ ہونا چاہیے، اگر خود ہی سرد روی اور بداعتمادی میں ڈوب جائے تو وہاں پلنے والا بچہ اندر ہی اندر ٹوٹنے لگتا ہے۔جب ماں باپ کے پاس وقت نہ ہو، تو بچہ سکون کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتا ہے۔ ایسے دوست جو خود بھی بھٹکے ہوئے ہوں، اسے تجربے کے نام پر نشے کی دعوت دیتے ہیں۔ ابتدا میں وہ اسے ایک مذاق سمجھتا ہے، لیکن یہی کھیل آہستہ آہستہ اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ، ناکامیوں اور بے حسی سے بھرا یہ خلا وہ نشے کے دھوئیں سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر حقیقت میں وہ خود کو اندھیرے کی جانب دھکیل رہا ہوتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کسی دوا یا قانون میں نہیںبلکہ اس کے آغاز سے پہلے کے ماحول میں ہے۔ علاج گھر کے اندر ہے ۔۔۔محبت، مکالمے اور اعتماد کے ساتھ۔ اگر والدین اپنے بچوں کے دوست بن جائیں، ان کی چھوٹی باتوں کو اہمیت دیں، ان کے خوف کو سمجھیں اور انہیں یقین دلائیں کہ وہ اکیلے نہیں، تو معاشرہ خود بخود محفوظ ہو جائے گا۔ پرامن اور محبت بھرا گھر وہ ڈھال ہے جو بیرونی زہر ۔۔۔چاہے وہ نشے کی صورت میں ہو یا بری صحبت کی ۔۔۔کا اثر زائل کر دیتا ہے۔تربیت اسکول کے نصاب سے نہیں بلکہ گھروں کی فضا سے بنتی ہے۔ یہی پہلا اور سب سے مؤثر قدم ہے جو ہمیں اجتماعی زوال سے بچا سکتا ہے۔
زندگی کا حسن ہوش میں جینے میں ہے۔۔۔مگر افسوس کہ آج کے نوجوانوں نے اسے نشے کے دھوئیں میں گم کر دیا ہے۔ کبھی یہ دھواں سگریٹ سے اٹھتا ہے، کبھی شیشہ کے فلیور سے، اور اب ویپ کے بخارات میں لپٹا ہوا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ زہر فیشن کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ ہاتھ میں سموکنگ ڈیوائس ہونا "کول" ہونا ہے۔ جو نسل خواب دیکھنے کے قابل تھی وہ اپنے ہی خواب دھوئیں میں اڑا رہی ہے۔
نوجوان جب ویپ پکڑ کر تصاویر اپلوڈ کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے جیسے وہ جدید دنیا کے فاتح ہیں، مگر دراصل وہ اپنی سانسوں کے دشمن بن چکے ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ اب محض ایک "عادت" نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے۔ والدین لاعلم رہتے ہیں اور جو جان بھی لیتے ہیں وہ سماجی شرمندگی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ یہی خاموشی اس زہر کو جڑ پکڑنے کا موقع دیتی ہے۔
اب وقت ہے کہ قانون اور معاشرہ دونوں جاگیں۔ سموکنگ ڈیوائسز پر سخت پابندی، کم عمر افراد کو فروخت کرنے والوں پر بھاری جرمانے اور سوشل میڈیا پر نشے کو "فیشن" بنا کر دکھانے والوں کے خلاف فوری کارروائی ناگزیر ہے۔
زندگی کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیشہ دوسرا موقع دیتی ہے۔ آج اگر غلطی ہوئی ہے تو کل سدھار ممکن ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ہیں جنہوں نے نشہ چھوڑ کر نئی زندگی پائی فرق صرف ارادے کا ہے۔ نوجوانوں کو سمجھنا ہوگا کہ اصل کشش کسی ڈیوائس یا دھوئیں میں نہیں بلکہ ان کی اپنی ذات، خوابوں اور ارادوں میں ہے۔ نشے سے انکار کمزوری نہیں، سب سے بڑی بہادری ہے۔ دنیا کی سب سے حسین شے نشے کا دھواں نہیںبلکہ ایک روشن صبح ہے وہ صبح جو تب طلوع ہوتی ہے جب انسان زندگی سے پیار کرتا ہے۔

 

Ali Abbas Kazmi
About the Author: Ali Abbas Kazmi Read More Articles by Ali Abbas Kazmi: 11 Articles with 2601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.