معاشرہ زیرِ تعمیر ہے
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
|
معاشرہ زیرِ تعمیر ہے
✍🏻 : علی عباس کاظمی 15کتوبر 2025ء
دنیا کی ہر قوم کا عروج و زوال اس کی تعلیم کے معیار سے پہچانا جاتا ہے۔ تعلیم محض کتابوں کی ورق گردانی یا امتحانات میں نمبر حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ انسان کی سوچ کو بیدار کرنے اور کردار کو نکھارنے کا عمل ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے تعلیم کو علم کی بجائے کاروبار بنا دیا ہے۔تعلیم کا اصل مقصد انسان کو "انسان" بنانا تھا لیکن آج کے تعلیمی ادارے اسے "پیشہ ور" بنانے میں لگے ہیں۔ ہم نے نصاب میں اخلاقیات کے اسباق تو شامل رکھے ہیں مگر عمل کے میدان میں اُن کی کوئی جھلک نہیں۔ طلبہ صبح یونیفارم میں ملبوس ہو کر اسکولوں کی بسوں میں سوار ضرور ہوتے ہیں مگر دل و دماغ کی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ استاد جو کبھی روحانی باپ کہلاتا تھا اب ایک تنخواہ دار ملازم بن چکا ہے۔ تعلیم جو کبھی مشن تھی اب کمیشن بن گئی ہے۔زمانہ بدل گیا ۔ ۔ ۔ اقدار کا زاویہ بھی۔ جب سے تعلیمی ادارے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں آئے ہیں تعلیم کا مقدس چہرہ منافع کے غلاف میں چھپ گیا ہے۔ والدین علم نہیں برانڈ خریدتے ہیں۔ ایک اسکول دوسرے سے اس لیے بہتر سمجھا جاتا ہے کہ وہاں یونیفارم کی قیمت زیادہ ہے یا فیس زیادہ دی جاتی ہے۔ مقابلہ اب اس بات پر نہیں کہ کون سا ادارہ زیادہ اچھے انسان تیار کرتا ہے بلکہ اس پر کہ کس کے پاس زیادہ اے پلس گریڈ والے طلبہ ہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جو ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ جب تعلیم کا مقصد دولت کمانا بن جائے تو نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ علم اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ ہمیں ایسے ڈاکٹر ملتے ہیں جو مریض نہیںپیسے دیکھتے ہیں، ایسے وکیل جو انصاف نہیں مقدمے کی فیس پر نظر رکھتے ہیں اور ایسے استاد جو شاگردوں کے مستقبل نہیںاپنی پروموشن کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ کردار سازی کا عمل رفتہ رفتہ تعلیمی منظرنامے سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ نصاب میں اخلاق، ایثار، صداقت، خدمتِ خلق، سچائی جیسے مضامین صرف امتحانی سوالات کی حد تک رہ گئے ہیں۔ عملی زندگی میں یہ سب بے معنی الفاظ بن چکے ہیں۔ یہ صورتِ حال صرف اداروں کی نہیںوالدین کی ترجیحات کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ آج کے والدین اولاد کے لیے "اچھا اسکول" ڈھونڈتے ہیں "اچھا استاد" نہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم کا مطلب ہے اچھی ملازمت، مہنگی گاڑی اور بیرونِ ملک سیٹل ہونا۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال نہیں کہ ہمارا بچہ انسان کتنا بن رہا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے لائبریریاں نہیں ٹیوشن سینٹر ڈھونڈتے ہیں۔ ہم انہیں نصاب یاد کراتے ہیں مگر کردار نہیں سکھاتے۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے قوموں کا زوال شروع ہوتا ہے۔ جب تعلیم کے ستون پر اخلاق کی بنیاد کمزور پڑ جاتی ہے تو پورا معاشرہ دھڑام سے گر پڑتا ہے۔ آج ہمیں ہر شعبے میں کرپشن، بددیانتی، جھوٹ، رشوت اور خود غرضی کیوں دکھائی دیتی ہے؟ اس لیے کہ ہمارے تعلیمی ادارے کردار نہیں قابلیت پیدا کر رہے ہیں اور قابلیت جب اخلاق کے بغیر ہو تو خطرناک ہتھیار بن جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیم کے اس بگڑے ہوئے تصور کو درست کریں۔ استاد کو دوبارہ عزت و احترام کا وہ مقام دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے۔جہاں تعلیم کاروبار بن جائے وہاں انسانیت کا زوال یقینی ہےکسی قوم کی بقا کا راز اُس کے کردار میں پوشیدہ ہوتا ہے۔علم روشنی تو بخشتا ہے مگر جب اخلاق کی حرارت سے خالی ہو تو یہی روشنی آنکھوں کی بینائی چھین لیتی ہے۔ کچھ دن پہلے بیرونِ ملک مقیم ایک دوست سے گفتگو ہو رہی تھی۔تعلیم کے بارے میں اُن کی ایک بات نے میرے اندر کئی سوال جگا دیے۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں بچے کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار سازی پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ صرف ایک کامیاب پیشہ ور نہیں بلکہ ایک بہتر انسان بن کر اپنے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرے۔ہم لوگ اکثر مشرقی اقدار کے زوال کا نوحہ پڑھتے ہیں مگر افسوس کہ یہ نوحہ محض باتوں تک محدود رہ گیا ہے۔ عملی زندگی میں ان اقدار کی جھلک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حقیقت تب کھلتی ہے جب ہم اپنے معاشرتی رویوں کا جائزہ لیتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے برتاؤ میں خلوص کم مفاد زیادہ دیکھتے ہیں۔ آج تعلقات احساسات پر نہیں ذاتی مفادات پر قائم ہیں اور جہاں مفاد ٹکراتا ہے وہاں تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ہم غلطی تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کو الزام دینا اپنا حق سمجھتے ہیں یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری تعلیم اور تربیت کا فرق نمایاں ہو جاتا ہےجہاں علم موجود ہے مگر کردار غائب۔ ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں قلم تو تھما دیتے ہیں مگر ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم انہیں تاجر بنانا چاہتے ہیں یا صاحبِ کردار انسان؟اگر ہمارا مقصد صرف مقابلے میں آگے نکلنا ہے تو یہ تعلیم نہیں ۔ ۔ ۔ دوڑ ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے تعلیم کو کاروبار نہیں فلاحِ انسانیت کا ذریعہ بنایا۔ اُن کے ہاں استاد سرمایہ دار سے زیادہ محترم ہے اور کردار قابلیت سے زیادہ قیمتی۔ اگر ہم نے بھی یہ راز سمجھ لیا تو شاید ابھی بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ہمیں تسلیم کرناہوگا کہ تعلیم محض نوکری نہیں بیداریِ ضمیر کا نام ہے اور جب تک ضمیر نہیں جاگتا قوم روشنیوں میں بھی ۔ ۔ ۔ اندھی رہتی ہے۔
|
|