خلائی تحقیق میں چین کی نمایاں کامیابیاں

خلائی تحقیق میں چین کی نمایاں کامیابیاں
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

یقیناً، انسانی خلائی تحقیق کا سفر ہمیشہ متحرک اور جدت پذیر رہا ہے۔ سنہ 1957 میں پہلے مصنوعی سیارے کی لانچنگ کے بعد سے ہی خلائی دور کا آغاز ہوا، جس نے بیسویں صدی میں سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان خلائی دوڑ کی شکل اختیار کر لی۔ اس تاریخی مسابقت نے نہ صرف سائنسی ترقی کو بے مثال رفتار بخشی بلکہ انسان کی خلائی صلاحیتوں کے نئے دروازے کھول دیے۔ آج مصنوعی سیاروں کی لانچنگ، انسان بردار خلائی پروازیں، اور نظام شمسی کی گہری کھوج باقاعدہ خلائی سرگرمیاں بن چکی ہیں، جہاں خلاباز چاند کی سطح پر قدم رکھ چکے ہیں اور مریخ تک کے سفر پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس کے مزید حیرت انگیز انکشافات کی توقع ہے۔

چین کا شمار بھی انہی ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں خلا کی کھوج اور تحقیق کو نمایاں اہمیت حاصل ہے اور اس حوالے سے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔چین کے خلائی اداروں کے نزدیک مستقبل قریب میں ملک کے خلائی اسٹیشن کی بہتری کا عمل مسلسل جاری رہے گا۔ مجوزہ منصوبوں میں چاند پر انسان بردار مشن اور کائنات کی گہری تحقیق کلیدی اہداف ہیں، جبکہ نظام شمسی کے قریبی مشاہدے کا ہدف بھی شامل ہے۔ چینی اسپیس حکام کے مطابق ملک 2030 سے قبل چاند پر خلابازوں کو اتارنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چاند کے مدار میں ایک لینڈر اور ایک انسان بردار خلائی جہاز کو دو الگ راکٹوں کے ذریعے بھیجا جائے گا، جو مدار میں ڈاکنگ کے بعد خلابازوں کو لینڈر میں منتقل ہونے کا موقع فراہم کریں گے۔

خلائی حکام کے مطابق چاند پر اترنے والے خلابازوں کا انتخاب پہلے سے خلائی تجربہ رکھنے والے افراد میں سے کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، چین چاند پر سائنسی ریسرچ اسٹیشن قائم کرنے کے منصوبوں کا جائزہ لے رہا ہے، جس کے تحت منظم اور طویل مدتی تحقیق اور تکنیکی تجربات کے ذریعے کائنات کے اسرار دریافت کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کا مشن آگے بڑھایا جائے گا۔

چودھویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران، چین نے چاند کے عقبی حصے تک اپنی تحقیق کو وسعت دی۔ 25 جون 2024 کو چھانگ عہ-6 مشن نے 53 دن کے خلائی سفر کے بعد پہلی بار چاند کے عقبی حصے سے مٹی کے نمونے زمین پر واپس لائے۔ اس کامیابی پر بین الاقوامی خلائی فیڈریشن نے مشن ٹیم کو ورلڈ اسپیس ایوارڈ سے نوازا۔

یہ مشن خلائی انجینئرنگ کی ایک نمایاں مثال ہے۔ 3 مئی 2024 کو چھانگ عہ-6 تحقیقاتی مشن کو روانہ کیا گیا، جو چاند کے مدار میں داخل ہوا اور 2 جون کو ساؤتھ پول-ایٹکن بیسن میں مقررہ مقام پر اترا۔نمونے اکٹھے کرنے کے بعد، 4 جون کو مشن کا "ایسینڈر" حصہ چاند سے اڑا، اور 6 جون کو نمونے واپس "ریٹرنر" ماڈیول میں منتقل کیے گئے۔ 25 جون کو یہ ریٹرنر چین کے اندرونی منگولیا خود اختیار علاقے میں بالکل درست مقام پر اترا، جس میں 1935.3 گرام چاند کی مٹی شامل تھی۔

چینی سائنس دان ان نمونوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور انہوں نے چاند کے عقبی حصے پر آتش فشانی سرگرمیوں، قدیم مقناطیسی میدان، چاند کے مینٹل میں پانی کی موجودگی اور اس کی ارتقائی خصوصیات کے بارے میں نئی دریافتیں کی ہیں۔

چھانگ عہ-6 مشن میں چار بین الاقوامی سائنسی آلات بھی شامل تھے۔ لینڈر پر فرانس کا ریڈان آئسوٹوپ ڈیٹیکٹر، یورپی خلائی ایجنسی کا آئن اینالائزر، اور اٹلی کا لیزر ریٹرو ریفلیکٹر نصب تھا، جبکہ آربیٹر پر پاکستان کا ایک چھوٹا سیٹلائٹ شامل تھا۔

چودھویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران، چین نے خلا کی گہری کھوج میں بھی شاندار پیش رفت کی۔ تھیان وین-1 مریخ مشن 23 جولائی 2020 کو روانہ کیا گیا۔ 202 دن اور 475 ملین کلومیٹر کے سفر کے بعد، یہ 10 فروری 2021 کو مریخ کے مدار میں داخل ہوا۔ 3 ماہ کی تیاری کے بعد، 15 مئی 2021 کو لینڈر مریخ کی سطح پر اترا، اور 22 مئی کو روور نے سطح پر حرکت شروع کی۔

تھیان وین-1 اور اس کے روور پر نصب 13 سائنسی آلات سے حاصل کردہ حقیقی ڈیٹا عالمی سائنس دانوں کے لیے دستیاب کر دیا گیا۔ ان مشاہدات سے مریخ کے درمیانی عرض البلد علاقوں میں قدیم سمندر کی موجودگی اور اس کے گرم و مرطوب ماضی کے شواہد ملے۔

تھیان وین-1 مشن کے دوران، چین کے خلائی ادارے نے ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی کے ساتھ مدار کے ڈیٹا کے اشتراک اور ٹکراؤ سے بچاؤ کے نظام پر تعاون کیا۔ اس کے علاوہ، تھیان وین-1 روور نے مارس ایکسپریس کے ساتھ مل کر ڈیٹا ریلی کمیونی کیشن ٹیسٹ، شمسی مشاہدات اور سولر ونڈ کی تحقیق بھی انجام دی۔

اس مشن کی کامیابی پر 2022 میں تھیان وین-1 کو بین الاقوامی خلائی فیڈریشن نے ورلڈ اسپیس ایوارڈ عطا کیا۔29 مئی 2025 کو چین نے تھیان وین-2 کامیابی سے لانچ کیا، جو ملک کا پہلا سیارچوں کی کھوج اور نمونہ واپسی کا مشن ہے۔یہ مشن سورج کے ابتدائی نظام کی تشکیل، مواد کی ساخت اور ارتقائی تاریخ کو سمجھنے میں انسانی علم میں نمایاں اضافہ کرے گا، اور چھوٹے فلکیاتی اجسام کے ساختی و کیمیائی تجزیے میں سائنسی اہمیت کا حامل ہو گا۔

چین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ آئندہ پندرھویں پانچ سالہ منصوبہ (2026-2030) کے دوران، خلا کی کھوج میں اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ چھانگ عہ -7 اور چھانگ عہ -8 بالترتیب 2026 اور 2028 میں لانچ کیے جائیں گے، جبکہ تھیان وین-3 تقریباً 2028 میں بھیجا جائے گا، جس کا مقصد مریخ کے نمونے زمین پر واپس لانا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1655 Articles with 948499 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More