ہمارے ملک کا دوہرا نظام — اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں امتیازی سلوک
(MUHAMMAD ALI RAZA, Karachi)
|
ًًمحمد علی رضا |
|
ہمارے ملک کا دوہرا نظام اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں امتیازی سلوک
ہمارے معاشرے میں تعلیم کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ قوموں کی ترقی و خوشحالی میں اساتذہ کا کردار بنیادی ستون کی طرح ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں آج بھی ایک ایسا دوہرا نظام رائج ہے جو انصاف، برابری اور قانون کی روح کے خلاف ہے۔ یہ دوہرا نظام خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں یہ عام مشاہدہ ہے کہ تدریسی عملہ (Teaching Staff) یعنی اساتذہ کی حاضری باضابطہ طور پر نہیں لی جاتی، جبکہ دوسری طرف غیر تدریسی عملہ (Non-Teaching Staff) پر سخت نگرانی اور حاضری کا مکمل نظام نافذ ہوتا ہے۔ ہر روز ان کی حاضری لگائی جاتی ہے، تاخیر یا غیر حاضری پر باز پرس ہوتی ہے، اور بعض اوقات سزا بھی دی جاتی ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا استاد سرکاری ملازم نہیں؟ کیا ان پر وہی قواعد و ضوابط لاگو نہیں ہونے چاہییں جو ایک غیر تدریسی ملازم پر ہوتے ہیں؟ دونوں ہی سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں، دونوں ہی ریاست کے ملازم ہیں، اور دونوں ہی عوام کے ٹیکس سے چلنے والے نظام کا حصہ ہیں۔ پھر یہ امتیاز کیوں؟ اساتذہ کی عزت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن یہ عزت ذمہ داری سے فرار کا جواز نہیں بن سکتی۔ اگر ایک کلرک، نائب قاصد یا کمپیوٹر آپریٹر روزانہ وقت پر دفتر حاضر ہوتا ہے تو استاد کو بھی وقت کی پابندی کرنی چاہیے۔ یہی اصول برابری اور انصاف کا تقاضا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دوہرے معیار کی وجہ سے اداروں میں نظم و ضبط کا فقدان پیدا ہو رہا ہے۔ غیر تدریسی عملہ خود کو مظلوم محسوس کرتا ہے، جبکہ تدریسی عملہ خود کو مخصوص رعایتوں کا مستحق سمجھنے لگتا ہے۔ نتیجتاً ایک دیوارِ بیاعتمادی کھڑی ہو جاتی ہے، جس کا نقصان پورے ادارے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس دوہرے نظام کو ختم کریں۔ حاضری، ذمہ داری، اور جواب دہی کے وہی اصول تمام ملازمین پر یکساں لاگو ہوں۔ استاد کو بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو دلجمعی اور دیانتداری سے نبھانا چاہیے، کیونکہ تعلیم صرف درسگاہوں میں نہیں بلکہ عمل اور کردار سے بھی منتقل ہوتی ہے۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام میں انصاف، نظم و ضبط اور برابری قائم کر لیں تو یہی اصلاح قوم کی ترقی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ورنہ دوہرے معیاروں کے سائے میں، نہ ادارے سنبھلیں گے، نہ قوم ترقی کرے گی۔:؛ |
|