محب ،محبت،محبوب اور ہم
(Babar Alyas , Chichawatni)
مکالمہ عنوان! محب،محبوب،محبت اور ہم! تحریر ۔۔۔۔ بابرالیاس شریکِ گفتگو! باباجی اور مرید
نوٹ! یہ مکالمہ مرید اور بابا جی کے درمیان محبت، ایمان، خوف، اعتماد، انا اور رشتوں کے مختلف پہلوؤں پر مبنی ہے۔ دل، عقل، اور روح کے تناظر میں پڑھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: بابا جی، محبت میں اگر محبوب کی جگہ محبت کو انتخاب کیا جائے تو لکھا کس پر جائے گا؟
بابا جی: جب محبت کو محبوب سے اوپر رکھا جائے تو تحریر محبوب کے نام نہیں، محبت کے نام لکھی جاتی ہے۔ اس کا مراد یہ ہے کہ الفاظ اُس جذبے کے لیے ہوں گے جو انسان کے اندر جاگزیں ہوتا ہے — وہی حسّ جو بدل ڈالتی ہے۔ اس صورت میں تحریر اُس وجود کے بجائے اُس کیفیت کے نام ہوگی جو دل میں رہ گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔
مرید: جب وہ انتخاب ہے، نہ رہے ہمارا، پھر کیسے؟
بابا جی: یہ سوال دردِ دل کی کیفیت ہے۔ جب دل نے انتخاب کر لیا اور وہ اب ہمارا نہ رہے تو جینا مشکل ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں دل اکیلا رہ جاتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت، صبر اور قبولیت سے دل دوبارہ سنبھلتا ہے۔ محبت کی یاد اپنے اندر سکون یا درد دونوں چھوڑ سکتی ہے — راستہ دل کی تربیت اور دعا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
مرید: اگر محبت کو ایک طرف رکھ دیں — مثال کے طور پر ہم کچھ شدت سے مانگیں، ملنے کے بعد وہ غیر اہم کیسے ہو جاتی ہے؟
بابا جی: آپ نے بہترین مثال دی — دو روٹیاں کھا کر پیٹ بھر جانا اور پہلے والی محنت بھول جانا۔ یہ انسانی فطرت ہے: شدت اکثر کمی اور تلاش میں ہوتی ہے۔ جب وہ چیز مل جاتی ہے، تو کمی ختم ہو جاتی ہے؛ چاہت اپنی صورت بدل دیتی ہے۔ یہ بھول جانا نہیں، بلکہ ترجیحات کا بدل جانا ہے۔ محبت جب طلب میں ہوتی ہے تو اس کی تڑپ زیادہ محسوس ہوتی ہے؛ ملنے کے بعد وہ صورتیں سکون یا عادت بن جاتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔
مرید: چاہت اور عقیدت میں کیا فرق ہے؟
بابا جی: سادہ فرق: چاہت میں طلب اور حصول کی خواہش ہوتی ہے، عقیدت میں تسلیم اور احترام۔ چاہت بےقراری، قربت کی خواہش، اپنے آپ کا عکس تلاش کرنا ہو سکتی ہے؛ عقیدت میں فاصلہ بڑھنے سے بھی تعلق گہرا رہتا ہے، یہاں سکون اور یقین ہوتا ہے۔ عقیدت میں "میں" کم اور "وہ" زیادہ رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
مرید: کیا محبت عبادت ہے؟
بابا جی: ہاں اور نہیں — اگر محبت خدا یا اس کی رضا کے لیے ہو تو عبادت بنتی ہے۔ مخلوق سے محبت بذاتِ خود عبادت نہیں مگر اگر وہ محبت انسان کو پاک کرے، نیکی کی طرف لے جائے اور خلوص میں ہو تو اُس کی خوشبو عبادت کی طرح ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
مرید: کیا محبت کوئی اصول ہے؟
بابا جی: محبت بذاتِ خود اصول نہیں، یہ فطرت ہے۔ مگر محبت کو برقرار رکھنے کے لیے اخلاقی اصول ضروری ہیں — وفا، ایثار، سچائی اور حدود۔ بعض بلند کیفیتیں خود اصول بن سکتی ہیں، جیسے ماں کی محبت یا عشقِ الٰہی۔
۔۔۔۔۔۔
مرید: محبوب بننا مشکل ہے یا آسان؟
بابا جی: دنیاوی سطح پر محبوب بننا آسان ہے — جمال، ادا اور وقتی توجہ سے لوگ محبوب بن جاتے ہیں۔ مگر دل کا محبوب بننا مشکل ہے؛ وہ مقام کردار، استقامت، اور اندرونی خوبی مانگتا ہے۔ محبوب بننا آسان، محبوب رہنا مشکل ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
مرید: یہ محب بننا کیسا ہے؟
بابا جی: محب بننا خودی کو قربان کرنے کی صورت ہے۔ محب وہ ہے جو دینے والا، صابر، اور بےغرض ہوتا ہے۔ یہ عبادت جیسی کیفیت ہے — خود کو مٹانا اور محبوب کی بھلائی میں خوش رہنا۔ محب کا درجہ امتحان اور فنا دونوں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محب یا محبوب کون زیادہ قربانیاں دیتا ہے؟
بابا جی: بظاہر محب بیشتر قربانیاں دیتا ہے — وہ دیتا ہے، انتظار کرتا ہے اور محسوس کرتا ہے۔ مگر سچا محبوب بھی قربانیاں دیتا ہے — اپنی آزادی، سکون یا بعض اوقات اپنی شان۔ فرق یہ ہے کہ محب کی قربانیاں ظاہر ہوتی ہیں، محبوب کی قربانیاں اندرونی اور خاموش۔ دونوں کا مقام الگ الگ نوعیت کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبت میں محبوب کا اصل مقام کیا ہوتا ہے؟
بابا جی: تین سطحوں پر:
دل میں محبوب مرکز ہوتا ہے — وہ وجۂ حیات بن جاتا ہے۔
روح میں محبوب آئینہ بنتا ہے — محبوب میں خدائی جمال کا عکس محسوس ہو سکتا ہے۔
عقل میں محبوب امتحان بنتا ہے — محب کے صبر، اخلاص اور وفا کا پیمانہ۔ محبوب محبت کا محور، مگر روحانی منزلِ معراج خالق کی پہچان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محب کا مقام محبت میں؟
بابا جی: محب وہ پیداکار ہے جو محبت کو زندہ کرتا ہے۔ محب کی وہ ذات ہے جو خود کو فنا کر کے محبوب کے لیے وقف کرتی ہے۔ محب کا مقام وہی ہے جو محبت کی روح ہے — وہ خالقِ محبت ہے، چاہے دنیا اسے کمزور سمجھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبت میں صرف محبوب کافی ہے؟
بابا جی: دل کہتا ہے ہاں، مگر زندگی کہتی ہے نہیں۔ محبوب دل کو پورا محسوس کرا سکتا ہے مگر زندگی کے تقاضے — روزی، عزت، احترام، اور باوقار زندگی — بھی ضروری ہیں۔ روحانی نقطہ نظر سے محبوب وسیلہ ہے؛ اصل کافی خالق کا قرب ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبت میں یہ "میں" نہیں ہوتی، کیا یہ سچ ہے؟
بابا جی: شروع میں "میں" غالب ہوتی ہے — طلب اور خواہش۔ محبت پختہ ہونے پر وہ "میں" گھل کر "تو" میں بدل جاتی ہے۔ مکمل فنا بھی مکمل غائب ہونے جیسی نہیں؛ اصل تبدیلی یہ ہے کہ "میں" بدل کر دوسرے کی بھلائی میں شامل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبوب کی خواہش محب کی زندگی اور بس یہ کافی ہے؟
بابا جی: دل کی سطح پر ہاں، مگر بامقصد زندگی کے لیے کافی نہیں۔ محب کو اپنا وجود، عزتِ نفس، مقصدِ حیات بھی چاہیے۔ محبوب کی خواہش جیون کو معنی دیتی ہے، مگر محبت خود ایک وسیلہ بن کر زندگی کے بڑے مقصد (مثلاً خالق کی رضا) تک لے جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبت محبوب کی خوشی ہے، کیا یہ درست ہے؟
بابا جی: دل کے لحاظ سے ہاں — سچی محبت میں محبوب کی خوشی سب کچھ ہوتی ہے۔ مگر عقل کہتی ہے کہ یہ جزوی درست ہے کیونکہ محب کا سکون اور عزتِ نفس بھی ضروری ہے۔ روحانی طور پر محب محبوب کی خوشی سے بڑھ کر اس کی خیر اور اللہ کی رضا چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبت کی معراج محبوب ہے؟
بابا جی: مختلف زاویے:
دل: محبوب معراج محسوس ہوتا ہے۔
عقل: محبوب ذریعہ ہے، خود معراج نہیں۔
روح: معراج وہ ہے جب محبوب میں خالق کا عکس نظر آتا ہے۔ پس محبوب معراج کا ذریعہ بن سکتا ہے مگر معراج کی حقیقی منزل ذاتِ رب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: محبت ڈر کی موت ہے، یہ درست ہے؟
بابا جی: ہاں، شرط کے ساتھ۔ محبت دل سے ڈر کو مٹا دیتی ہے — جب سچی محبت ہو تو خوف گھٹتا ہے اور ایثار بڑھتا ہے۔ عقل کے نقطۂ نظر سے محبت ڈر کو بالکل ختم نہیں کرتی مگر اسے دعا اور احتیاط میں بدل دیتی ہے۔ روحانی طور پر محبت ہر مخلوقی خوف کو کم کر کے صرف خالق کا خوف باقی رکھتی ہے — جو آہستگی میں سکون ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: تو کیا محبت اعتماد کا پہلا قدم ہے؟
بابا جی: ہاں، محبت بہت مرتبہ اعتماد کا آغاز ہوتی ہے۔ اعتماد اور محبت ایک دائرہ ہیں — ایک دوسرے کو جنم دیتے ہیں۔ مگر ہر محبت میں اعتماد لازماً نہیں ہوتا؛ شک محبت کو کمزور کر دیتا ہے۔ روحانی سطح پر محبت دراصل اعتمادِ الٰہی کی شکل بن سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: ڈر کی قید میں ہوئی محبت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
بابا جی: ڈر کی قید میں محبت ادھوری رہتی ہے۔ سچی محبت آزاد ہوتی ہے؛ جب ڈر داخل ہو تو محبت خوف، احتیاط، اور چھپانے میں بدل جاتی ہے۔ ایسے رشتے کو شفا چاہیے — شفاف بات چیت، ہمدردی، اور کبھی کبھی حدود طے کرنے کی ضرورت۔ روحانی اعتبار سے بھی یہ عشق کا ابتدائی مرحلہ ہے؛ پختگی کے بغیر عشق تک پہنچتا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: ڈر کی قید کے باہر صرف اعتماد ہوتا ہے، یہ درست ہے؟
بابا جی: ہاں، دل اور روح کے آئینے سے دیکھا جائے تو درست ہے۔ جہاں ڈر ختم ہوتا ہے، وہیں اعتماد جنم لیتا ہے۔ اعتماد محبت کو آزاد کرتا ہے۔ روحانی سطح پر ڈر کے پار ایمان ہوتا ہے، اور ایمان اعتماد کا اعلیٰ درجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: کیا شریعت احساسات، جذبات، محسوسات اور سوچ کے عمل پر لاگو ہوتی ہے؟
بابا جی: تین جہات میں جواب:
فقہی: شریعت عموماً ظاہری اعمال پر لاگو ہوتی ہے؛ محض خیالات یا محسوسات جب تک ظاہر نہ ہوں، ان پر شرعی سزا یا حکم نہیں آتا۔
اخلاقی: نیت اور ارادے اہم ہیں۔ ناپسندیدہ احساسات اگر پالے جائیں تو اخلاقی محاسبے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
روحانی: تصوف اور تزکیہ نفس میں باطن کی کیفیتیں بھی محاسبہ کا حصہ ہوتی ہیں — مقصد اصلاحِ باطن ہے۔ قرآن و احادیث کا مفہوم یہی بتاتا ہے کہ ظاہری شریعت کے ساتھ باطنی صفائی بھی ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: کیا ممکن ہے کہ ایک لڑکی نکاح کے بعد اپنے شوہر سے محبت کرے، اور وہ اسے محبوب بنالے، پھر اس کے بارے میں پریشان رہے کہ کہیں وہ کسی اور لڑکی کے چکر میں تو نہیں — یعنی اعتبار ہی نہ ہو؟
بابا جی: بالکل ممکن ہے۔ نکاح کے بعد محبت آنا ایک مبارک حقیقت ہے؛ مگر شک اور بےاعتمادی کے خدشات بھی آ سکتے ہیں۔ یہ عموماً دو وجہ سے ہوتا ہے: شوہر کے رویے یا ماضی کی بےاعتمادی، یا بیوی کی حساسیت۔ حل شفاف بات چیت، ثبوت، وقت اور دعا میں ہے۔ اسلام بھی گمانوں سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، مگر ساتھ ہی حقیقت کو چھپانے یا نظرانداز کرنے کو بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرید: کیا محبت میں انا (اَناؤں) کی ضرورت ہوتی ہے؟
بابا جی: نہیں، انا محبت کی ضرورت نہیں؛ بلکہ انا محبت کی دشمن ہے۔ مگر وقار یا خودداری لازمی ہے — عزت کا تحفظ۔ محبت میں جھکنا عبادت بن سکتا ہے بشرطیکہ نیت خالص ہو۔ انا چاہت کو زہر دے دیتی ہے، جبکہ خودداری تعلق کو حد دیتی ہے اور وقار برقرار رکھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا جی! پتر یاد رکھنا کہ محبت ایک وسیع موضوع ہے جو دل، عقل، اور روح تینوں میں پلتی ہے۔ خالص محبت ایمان کی مانند ہے۔ محبت میں خوف مُنہدم ہوتا ہے مگر اعتماد جنم لیتا ہے۔ محب وہ ہے جو دیتا ہے، محبوب وہ ہے جو محسوس ہوتا ہے۔ شریعت ظاہر پر حکم دیتی ہے، مگر باطن کی صفائی بھی ضروری ہے۔ انا محبت کو ختم کرتی ہے، مگر خودداری اس کو وقار دیتی ہے۔ نکاح کے بعد محبت آ سکتی ہے، مگر اعتماد کی بنیاد بات چیت اور شفافیت ہے۔ محبت اگر عبادت بن جائے تو وہ انسان کو خالق کے قریب کر دیتی ہے۔ اور پتر یہ محبت کا سفر ہمیشہ سیکھنے، سمجھنے اور دل کی نرمائی کا سفر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
|
|