جرمنی سے کیا سیکھا؟

23 سال کی عمر میں جب میں پہلی بار ملک سے باہر گیا تو ایک غیر اسلامی معاشرے کی اشرافیہ کے بارہ سالہ بچے میکائیل نیلسن نے اپنے ایک رد عمل کے ذریعے تین باتوں پر عمل کرنے کا ایسا سبق دیا جو آج تک یاد ہے:-
1- وقت کی پابندی
2- وعدہ وفا کرنا
3- جھوٹ نہ بولنا
بوئنگ 720 اور 707 کے آٹو پائلٹ سسٹم کمپیوٹر کو انسٹرومنٹ اوور ہال ورکشاپ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن میں اٹھارہ برس کی عمر سے ٹیسٹ، ریپئیر اور اوور ہال کرنے والے ٹیسٹ ایکوئپمنٹ کو اپ گریڈ کرنے والی کمپنی نیلسن اینڈ سنز کی دعوت پر اپ گریڈ مکمل ہو جانے پر فائنل چیک کر کے وصولی کے لئے ہمبرگ جرمنی جانا پڑا۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی سے جرمن زبان میں شوقیہ ڈپلومے نے میرٹ پر مجھے اس قابل کیا۔ کمپنی کے چوالیس سالہ مالک نیلسن نے ہوٹل میں قیام کے دوسرے روز ہی مجھ سے کہا کہ چونکہ میں اکیلا ہی ہوں تو کیوں نہ اس کے ساتھ اس کے گھر چلا چلوں جہاں اس کی بیوی،ایک سترہ سالہ بیٹی اور بارہ سالہ بیٹا بھی ہیں، اس طرح ہوٹل کے اخراجات اس کو نہیں دینا پڑیں گے اور مجھے گھر میں کمپنی مل جائے گی۔ میں کوشش کے باوجود منع نہ کر سکا۔ صبح اپنے اپنے کمروں سے نکل ڈائننگ روم میں ناشتہ کر کے نیلسن مجھے اپنے ساتھ اپنی فیکٹری لے جاتا اور اس کی بیوی دونوں بچوں کو اپنی گاڑی میں اسکول چھوڑنے چلی جاتی۔ فیکٹری سے پانچ بجے چھٹی کے بعد ساڑھے پانچ گھر پہنچ جاتے اور پھر ایک بڑے کمرے میں سب بیٹھ کر اپنی اپنی پسند کی باتیں کرتے۔ صبح فیکٹری جاتے وقت بیٹا میکائیل واپسی کا وقت مجھ سے ضرور پوچھتا اور میرے بتائے ہوئے وقت پر شدّت سے انتظار شروع کر دیتا۔ ایک روز فیکٹری میں کام کے دوران ایک پیچیدہ مسئلہ پھنس گیا اور سات بج گئے، ساڑھے سات گھر پہنچے تو میکائیل اپنے کمرے سے باہر نہ آیا۔ میں نے اور اس کے ماں باپ نے سر توڑ کوشش کر لی لیکن بے سود۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں وعدے کے مطابق وقت پر واپس نہ آیا اس لیے میکائیل ناراض ہےاور اس نے تین باتوں کا مجرم ٹھہرایا ہے مجھے:- جھوٹ ، وقت کی پابندی نہ کرنا اور وعدہ خلافی۔ لہٰذا اب وہ مجھ سے بات کرنا تو درکنار شکل بھی نہیں دیکھے گا۔ میں نے سوچا بچہ ہے، غصے میں ہے تھوڑی دیر میں نارمل ہو جائے گا۔ تین روز گذر گئے مگر وہ میرے سامنے نہ آیا۔۔ میکائیل کی بہن، ماں اور باپ نیلسن کا سامنا کرنے کی میری ہمت نہیں ہو پا رہی تھی حالانکہ وہ میرے اس عمل میں اپنے آپ کو بھی شریک ثابت کر رہے تھے اور مجھے قطعی طور خطاوار ہرگز نہیں کہہ رہے تھے لیکن میکائیل نے بقیہ آٹھ روز نہ اپنی شکل دکھائی اور نہ ہی میری شکل دیکھی حتیٰ کہ پاکستان واپس آنے پر بھی خدا حافظ نہ کہا۔اس کے بعد سے آج تک تینوں میں سے کوئی ایک الزام لگنے سے میری روح کانپ جاتی ہے لیکن 56 سال بعد بھی ایک غیر مسلم بارہ سالہ بچے میکائیل کے سامنے میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ کر صبح، دوپہر، شام شرم سے ڈوب کر مرتا ہوں اور شرمندگی کی زندگی جیتا ہوں۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 301 Articles with 236881 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More