اسلامی نظام حیات
(Dr Saif Wallahray, Lahore)
|
اسلامی نظام حیات ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ انسانی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ آزادی ہمیشہ سے انسانی فطرت کی بنیادی خواہش رہی ہے۔ نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے نجات پانے کے لیے قوموں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، لیکن ان کی بے مثال جدوجہد کے باوجود بہت سی اقوام مکمل آزادی سے محروم رہیں۔ بظاہر غلامی کے بندھن ٹوٹ گئے مگر فکری، سیاسی اور معاشی غلامی کے نئے سانچے وجود میں آگئے۔ یہی صورت اہلِ مغرب کے معاشرتی ڈھانچے میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے جہاں نام نہاد تہذیب، روشن خیالی اور انسانی حقوق کے دعووں کے باوجود فردِ واحد حقیقی آزادی سے محروم ہے۔
مغربی معاشرت میں آئینی طور پر یہ شق موجود ہے کہ ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے، کسی فرد کی آزادی کو بغیر کسی معقول وجہ کے سلب کرسکے۔ "سیفٹی آرڈیننس" اور "سیکورٹی ایکٹ" جیسے قوانین اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ انسانی آزادی حکومت کی مرضی کے تابع ہے۔ ہنگامی حالات میں عوام سے جبری مشقت لی جا سکتی ہے اور اس میں ان کی رضامندی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ یہ قوانین اس امر کا ثبوت ہیں کہ مغربی جمہوریت کا مفہوم بھی دراصل مخصوص طبقے کی طاقت کے تحفظ تک محدود ہے۔
اسی طرح عورت کے حقوق کے بارے میں مغربی دنیا میں جو مساوات کا نعرہ بلند کیا گیا، وہ درحقیقت ایک فریب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ چند دہائیاں قبل تک مغربی معاشرے میں عورت کو وراثت میں کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اسے صرف صنفی مساوات کے نام پر استحصال کا ایک نیا روپ دیا گیا۔ معاشرتی سطح پر افراد اپنی اپنی فکر میں الجھے ہوئے ہیں، خاندان کا ادارہ کمزور ہوچکا ہے، رواداری اور باہمی ہمدردی ناپید ہیں، اور خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح اس اخلاقی زوال کی بین دلیل ہے۔
اس کے برعکس، اسلام نے انسان کو نہ صرف ظاہری بلکہ روحانی طور پر بھی آزادی عطا کی۔ اسلام کا نظامِ حیات انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں کو متوازن رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہاں فرد کی آزادی کو اتنی وسعت دی گئی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے، مگر ساتھ ہی اسے اس بات کا پابند بھی کیا گیا ہے کہ اس کی آزادی کسی دوسرے کے حق تلفی کا سبب نہ بنے۔ اسلام میں "حقوق العباد" کا تصور اس فکری توازن کی بہترین مثال ہے، جہاں ہر شخص کے فرائض اور حقوق واضح طور پر متعین کیے گئے ہیں۔
اسلامی معاشرت میں "الاقرب فالاقرب" کے اصول کے تحت حسنِ سلوک، قربت اور ایثار کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ یہاں قربانی کا مفہوم جبر سے نہیں بلکہ رضا و رغبت سے وابستہ ہے۔ غلامی، بردہ فروشی اور انسانی استحصال کی سختی سے ممانعت کی گئی۔ حضرت عمر فاروقؓ کا یہ قول اسلام کی آزادی کی روح کو واضح کرتا ہے: "ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہے، تم انہیں غلام کیسے بنا سکتے ہو؟" یہ جملہ انسانی آزادی کی اس بنیادی ضمانت کو ظاہر کرتا ہے جو اسلام کے ہر پہلو میں موجود ہے۔
اسلامی نظام میں معاشی آزادی کو بھی مقدس حیثیت دی گئی ہے۔ تجارت پر غیر ضروری پابندیوں کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "تاجر صادق و امین قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں کے ساتھ ہوگا"۔ یہ تعلیم واضح کرتی ہے کہ اسلام نے محنت، دیانت اور معاشی خودمختاری کو انسان کی ترقی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جائیداد اور وراثت کے منصفانہ اصول مقرر کرکے اسلام نے انفرادی ملکیت کے حق کو تسلیم کیا اور سماجی انصاف کو برقرار رکھا۔ تعلیم، پیشہ اور ہنر حاصل کرنے میں کسی قسم کی امتیاز یا رکاوٹ نہیں رکھی گئی۔ ہر شخص کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے اور معاشرے کی خدمت کرنے کی آزادی حاصل ہے۔
اسلام کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت اعتدال پسندی ہے۔ مادی ضروریات کی زیادتی یا کمی دونوں کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآنِ حکیم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا: "وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا" (الفرقان: 67) یعنی: "اور جو لوگ خرچ کرتے ہیں وہ نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک معتدل راہ اختیار کرتے ہیں۔"
اسلام نے نام و نمود، ریاکاری، اسراف اور فضول خرچی سے سختی سے منع کیا ہے۔ سادگی، قناعت اور میانہ روی کو زندگی کا نصب العین قرار دیا ہے۔ یہی اعتدال پسندی اسلام کو دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس سے ایک ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جہاں دولت کے بجائے کردار، ظاہری نمائش کے بجائے اخلاص اور طاقت کے بجائے عدل و توازن کو اصل معیار سمجھا جاتا ہے۔
یوں اسلام کا نظامِ زندگی ایک ایسی ہمہ گیر فکری ساخت پیش کرتا ہے جو نہ صرف انسان کو اس کی انفرادی آزادی عطا کرتا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر عدل و مساوات، اخوت اور توازن کو فروغ دیتا ہے۔ یہی وہ راہِ اعتدال ہے جو انسان کو روحانی سکون، سماجی ہم آہنگی اور حقیقی آزادی فراہم کرتی ہے—ایسی آزادی جو نہ طاقت کے زیرِ اثر ہے، نہ خواہشات کے تابع، بلکہ خالقِ کائنات کے نظامِ عدل سے ہم آہنگ ہے۔ |
|