ہم خود سے کتنے سچے ہیں ؟
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
|
✍🏻 : علی عباس کاظمی
ہم روزانہ خود کو آئینے میں دیکھتے ہیں، بال بناتے ہیں، چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہیں مگر کبھی رُک کر یہ نہیں سوچتے کہ اس چمکدار آئینے کے پیچھے چھپی ہوئی دھندلی حقیقت کیا ہے۔ ہماری سوسائٹی ایک ایسے آئینے کی مانند ہے جس میں ہر چہرہ اپنی مرضی کی تصویر دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم سب اصلاح کے نعرے لگاتے ہیں، سچائی کے درس دیتے ہیں مگر جب بات اپنے عمل کی آتی ہے تو ہم سب کسی نہ کسی سطح پر منافقت کا نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی برائیوں پر چیختے ہیں مگر اپنی غلطیوں پر خاموش رہتے ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو دیانتداری پر لیکچر دیتی ہے مگر موقع ملتے ہی چھوٹی سے چھوٹی بددیانتی کو ’’چالاکی‘‘ کا نام دے کر خود کو تسلی دے لیتی ہے۔ آج کا معاشرہ دو چہروں کا مجموعہ ہے ۔ ۔ ۔ ایک وہ جو ہم دنیا کو دکھاتے ہیںاور دوسرا وہ جو ہم اندر سے چھپاتے ہیں۔ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر جھوٹ بولنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ ہم رمضان کےایک ماہ کے لیے نیک بن جاتے ہیں مگر گیارہ مہینے انسانیت بھول جاتے ہیں۔ ہم اخلاقیات کے علمبردار بن کر دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں مگر اپنی ذات پر عمل کرنے کے وقت ہزاروں جواز تراش لیتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا پر انصاف، برداشت اور خلوص کے لیکچر دیتے ہیں مگر عملی زندگی میں ذاتی مفاد، حسد، اور انا کے غلام بنے رہتے ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جو ہمارے زوال کی بنیاد بن چکا ہے؛ سچ ہماری زبان پر ہے مگر جھوٹ ہمارے رویّوں میں رواں ہے۔ معاشرتی قدریں ہمارے بیانیے کا حصہ تو ہیں مگر ہمارے کردار سے غائب ہو چکی ہیں۔ ہم دوسروں کی تربیت کے دعوے دار ہیں مگر اپنے بچوں کو مثال بننے کی بجائے طاقتور بننے کا سبق دیتے ہیں۔ ہمیں اصول پسند لوگ پسند ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ان اصولوں کا نقصان ہمیں نہ ہو۔ ہم مذہب کے نام پر جذباتی ہو جاتے ہیں مگر اسی مذہب کی روح ۔ ۔ ۔ انصاف، محبت اور سچائی۔ ۔ ۔ سے بہت دور ہیں۔ ہم بدعنوانی پر لعنت بھیجتے ہیں مگر رشوت کے بغیر اپنا کام نہیں کرواتے۔ ہم جھوٹ کے خلاف ہیں مگر سچ بولنے والے کو ’’ناسمجھ‘‘ اور ’’بیوقوف‘‘ کہہ کر طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ سچ بولنا آج کے معاشرے میں جرم بن چکا ہے۔ وہ شخص جو ایماندار ہو اسے یا تو نظام روند دیتا ہے یا معاشرہ تنہا کر دیتا ہے۔ ہم نے اپنے ضمیر کو اتنی بار خاموش کروایا ہے کہ اب وہ بولنے سے پہلے اجازت مانگتا ہے۔ ہم نے سچائی کو صرف کتابوں میں زندہ رکھا ہےاور جھوٹ کو روزمرہ کی ضرورت بنا دیا ہے۔ یہ وہ زوال ہے جو صرف اقتصادی یا سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی سطح پر ہماری بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے عقل نہیں نمبروں کے غلام پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے مذہبی اجتماعات روح کی بیداری کے بجائے تفرقے کا منبر بن چکے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے سچ کو ریٹنگ کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا ہےاور ہماری عدالتوں میں انصاف ’’وقت‘‘ اور ’’تعلق‘‘ کے پیمانے پر تقسیم ہو رہا ہے۔ ہماری سوسائٹی کا ہر جذبہ دکھاوے میں بدل گیا ہے عزت نمائش بن گئی، علم تفاخر، عقیدہ دلیلِ برتری، اور محبت محض رسم۔ہم نے چہروں پر نیکی کے نقاب چڑھا رکھے ہیں مگر دل حسد، حرص، اور بدگمانی سے لبریز ہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جو ظالم کی طاقت پر فخر کرتی ہے اور مظلوم کی سچائی پر خاموش رہتی ہے۔ ہم اپنے مفاد کی خاطر اصول بدل لیتے ہیں، دوست بدل لیتے ہیںحتیٰ کہ ایمان کے معیار تک کو اپنی سہولت کے مطابق تشریح کر لیتے ہیں۔ یہ تضاد صرف افراد کا نہیں بلکہ اجتماعی شعور کا مسئلہ ہے۔ ہم نے سچ کو زبان سے ادا کرنا سیکھا مگر دل سے ماننا بھول گئے۔ ہم نے اصلاح کا نعرہ تو بلند کیا مگر اپنی ذات کی اصلاح کو کبھی ترجیح نہ دی۔ معاشرے کی تبدیلی کا آغاز ہمیشہ خود سے ہوتا ہےمگر ہم دوسروں کے بدلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت دیانتدار ہومگر ہم خود ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ انصاف پر چلے مگر جب باری آئے تو سفارش کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ’’نظام بدلنے‘‘ کی بات کرتے ہیں مگر اپنی سوچ نہیں بدلتے۔ اصلاح کے سفر کا پہلا قدم سچائی ہےاور سچائی کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود سے سچ بولے۔ ہمیں آئینے میں اپنا اصل چہرہ دیکھنے کی ہمت پیدا کرنی ہوگی۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم میں جھوٹ، منافقت اور خودغرضی کے بیج موجود ہیں۔یہ زوال حکومتوں یا نظام کی ناکامی نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی شعور کی خاموش موت کا اعلان ہے۔معاشرے نے سچ بولنے والوں کو طعنہ دیا، حق کہنے والوں کو پاگل کہا اور جھوٹ بولنے والوں کو سراہا ۔ ۔ ۔ اب سچ کمزوری ہے اور جھوٹ کامیابی کا راستہ۔ ہمیں وہ ہمت جمع کرنی ہوگی کہ اپنی نظروں کا سامنا خود سے کریں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بدلے تو ہمیں دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی چار انگلیوں کو دیکھنا ہوگا جو خود ہماری طرف اشارہ کرتی ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرہ کبھی یکدم نہیں بگڑتا، یہ آہستہ آہستہ جھوٹ کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اور جب سچ بولنے والے کم ہو جاتے ہیںتو ظلم بولنے لگتا ہے۔ سچ کڑوا ضرور ہے مگر یہی وہ دوائی ہے جو ضمیر کو زندہ رکھتی ہے۔ قومیں طاقت سے نہیں، سچائی سے زندہ رہتی ہیں ۔ ۔ ۔ اور سوال اب بھی وہی ہے، ہم خود سے کتنے سچے ہیں؟
() |
|