فطرت کی حقیقت ! جنت کی راہ کی پہچان اور پیغمبروں کا مشن۔ طاغوت سے بچو !!
(Ismail Bin Yousuf, Karachi)
| فطرت انسان کے اندر (پری انسٹال) ایک قدرتی نظام ہے جو حق، سچائی، محبت، خیرخواہی اور عدل کی پہچان رکھتا ہے۔ |
|
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ دین کی طرف کرو، وہی فطرتِ الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘‘ (سورہ روم 30)۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسان کے اندر (پری انسٹال) ایک قدرتی نظام ہے جو حق، سچائی، محبت، خیرخواہی اور عدل کی پہچان رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں‘‘ (صحیح بخاری)۔ اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ بچے کے اندر بھلائی، سچائی اور سادگی کا رجحان قدرتی طور پر ہوتا ہے، مگر ماحول، تربیت اور معاشرہ اس رجحان کو بدل سکتا ہے۔ بچے جنت کی کیفیت کے قریب ہوتے ہیں۔ وہ سادہ، سچے، بے خوف اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے سوالات سچے اور ان کی خواہشات صاف ہوتی ہیں۔ وہ خوشی چاہتے ہیں، غم نہیں؛ وہ آزادی چاہتے ہیں، جبر نہیں، وہ روشنی چاہتے ہیں، اندھیرا نہیں۔ وہ جاگنا چاہتے ہیں سونا نہیں، جنت بھی اسی فطرت کی تکمیل ہے جہاں نہ غم ہے نہ موت، نہ نیند ، نہ خوف ہے نہ جبر۔ انسان کی فطرت دراصل جنتی فطرت ہے، اسی لیے انسان ہمیشہ سکون، خوشی، محبت اور امن تلاش کرتا ہے۔ مگر دنیا کی آزمائشوں میں یہ فطرت پردوں میں چھپ جاتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے پیغمبر بھیجے تاکہ لوگ اپنی اصل فطرت کو پہچانیں۔ نبیوں کی تعلیمات انسان کو یاد دلاتی ہیں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں لوٹ کر جانا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ وہ کہے اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو‘‘ (سورہ نحل 36)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کا مقصد انسان کو اس کی اصل راہ، یعنی فطرت کی راہ پر واپس لانا تھا۔ پیغمبروں نے انسان کو یہ سکھایا کہ فطرت کی آواز سنو، سچائی سے محبت کرو، ظلم سے نفرت کرو اور دل کی سادگی کو برباد نہ کرو۔ نبی کریم ﷺ کی پوری تعلیم دراصل انسانی فطرت کی اصلاح اور رہنمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق کو مکمل کروں‘‘ (مسند احمد)۔ اخلاق دراصل فطرت ہی کا حسن ہیں، اور نبی ﷺ نے ان اخلاق کو اپنے عمل سے واضح کر دیا۔ والدین کا کردار بھی فطرت کے تسلسل میں بہت اہم ہے۔ وہی بچے کی اصل فطرت کو یا تو سنوارتے ہیں یا بگاڑ دیتے ہیں۔ اگر والدین بچے کی سچائی، سوالات، محبت اور سادگی کو سراہیں، ان کی بات غور سے سنیں، ان پر بے جا پابندیاں نہ لگائیں، اور نرمی سے رہنمائی کریں تو بچے کی فطرت مضبوط ہوتی ہے۔ اگر وہ سختی، جھوٹ یا جبر کا ماحول بنائیں تو فطرت دب جاتی ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی‘‘ (سورہ لقمان 14)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تربیت کا عمل فطرت کے احترام سے جڑا ہے۔ انسان کی نفسیات بھی فطرت ہی کی توسیع ہے۔ جب انسان اپنی فطرت کے خلاف جیتا ہے تو اس کے اندر بے چینی، خوف، حسد اور غصہ پیدا ہوتا ہے، لیکن جب وہ فطرت کے مطابق جیتا ہے تو اس کے دل کو سکون اور روح کو اطمینان ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے ’’یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے‘‘ (سورہ رعد 28)۔ جنت دراصل اس فطری سکون کا ابدی مقام ہے جہاں انسان کی ہر سچی خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ وہاں نہ تھکن ہے، نہ نیند کی حاجت، نہ موت، نہ غم۔ اس دنیا میں انبیاء کی تعلیمات اسی جنتی فطرت کو پہچاننے اور واپس پانے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ اگر انسان اپنی فطرت کے قریب رہے، بچوں جیسی سچائی، سادگی، محبت اور خیر کو اپنا لے، تو یہی رویہ اسے جنت کے قریب لے جاتا ہے۔ پیغمبروں کی دعوت یہی تھی کہ انسان اپنے خالق کے ساتھ، اپنی فطرت کے ساتھ، اور اپنے آپ کے ساتھ سچائی اختیار کرے۔ یہ فطرت کی پہچان ہی اصل دین ہے اور یہی جنت کی راہ ہے۔
تحریر و تحقیق : آئی بی وائی |
|