علامہ محمد اقبالؒ، شاعرِ مشرق کی حیات و پیغام



اقوامِ عالم میں بعض شخصیتیں ایسی پیدا ہوتی ہیں جو اپنے زمانے کی حدود سے آگے بڑھ کر آنے والے زمانوں کی فکری و روحانی سمت متعین کر دیتی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ بھی انہی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا اور ان کے دلوں میں خودی، ایمان اور عمل کا چراغ روشن کیا۔

علامہ اقبالؒ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں ایک مذہبی اور علم دوست کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام شیخ نور محمد تھا جو نہایت دیندار اور درویش صفت انسان تھے۔ والدہ امام بی بی نہایت نیک، صابر اور صوم و صلوٰۃ کی پابند خاتون تھیں۔ انہی والدین کی تربیت نے اقبال کے دل میں علم و عرفان کا بیج بو دیا۔
اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ کے مشن ہائی اسکول سے حاصل کی اور ایف اے مرے کالج سے کیا۔ وہ بچپن ہی سے غیر معمولی ذہانت کے حامل تھے۔ استاد میر حسن کی تربیت نے ان کے اندر اردو، فارسی اور عربی ادب کا ذوق بیدار کیا۔ یہی ذوق آگے چل کر ان کے فکری سفر کا سنگِ بنیاد بنا۔

1895ء میں اقبالؒ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں ایم اے فلسفہ میں اول پوزیشن حاصل کی۔ ان کے فکری سفر کا اگلا پڑاؤ یورپ تھا، جہاں انہوں نے 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے قیام کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈگری حاصل کی، لنکنز اِن سے قانون کی تعلیم لی اور جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
اقبالؒ نے مادی تہذیب کی چمک دمک کے پیچھے چھپی روحانی و اخلاقی ویرانی کو محسوس کیا۔ اس مشاہدے نے ان کی شاعری اور فکر میں ایک گہرا روحانی زاویہ پیدا کیا۔

ان کی فارسی تصانیف اسرارِ خودی، رموزِ بے خودی، پیامِ مشرق، زبورِ عجم اور اردو مجموعے بالِ جبریل، بانگِ درا، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز نے مسلم دنیا میں فکری انقلاب برپا کیا۔
اقبالؒ کا مرکزی پیغام “خودی” ہے. یعنی انسان اپنی باطنی قوت، ایمان اور کردار کے ذریعے اپنے اندر اللہ کی نیابت کا شعور پیدا کرے۔ ان کے نزدیک ایمان محض عقیدہ نہیں بلکہ عمل، عشق اور حرکت کا نام ہے۔
انہوں نے نوجوانوں کو بلند نگاہی اور خود اعتمادی کا درس دیا۔
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔"

اقبالؒ صرف شاعر نہیں، ایک مصلح اور مفکر بھی تھے۔ 1930ء میں الہ آباد کے تاریخی خطبے میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا. یہی خواب آگے چل کر پاکستان کی بنیاد بنا۔
ان کے افکار نے قائداعظم محمد علی جناح کو سیاسی قیادت کی جانب راغب کیا۔ اقبالؒ کو بجا طور پر “فکری معمارِ پاکستان” کہا جاتا ہے۔

اقبالؒ کے ہاں روحانیت محض تصوف کا اظہار نہیں بلکہ ایک عملی قوت تھی۔ ان کے نزدیک عشقِ رسول ﷺ ایمان کا مرکز ہے اور اللہ سے تعلق انسان کی اصل توانائی۔ ان کے دل سے نکلے ہوئے یہ اشعار آج بھی عشقِ مصطفی ﷺ کے عَلمبردار ہیں:

"کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں۔"

زندگی کے آخری برسوں میں اقبالؒ کی صحت کمزور ہو چکی تھی مگر ان کا فکری سفر تھما نہیں۔ وہ مسلسل اپنی قوم کے مستقبل کے لیے فکر مند رہے۔ 21 اپریل 1938ء کو یہ مردِ مومن اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر گیا مگر اپنے اشعار کے ذریعے آج بھی زندہ ہے۔ ان کا مزار لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع ہے جو زائرین کے لیے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔

اقبالؒ کی زندگی علم، عشق اور عمل کا حسین امتزاج تھی۔ وہ شاعر بھی تھے، مفکر بھی اور درویش بھی۔ آج بھی اگر ہم اقبالؒ کے افکار کو سمجھ کر عمل میں لائیں، تو ہم نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی خودی پا سکتے ہیں بلکہ دنیا میں عزت و وقار کا مقام بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
اقبالؒ نے خود فرمایا تھا:

"افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر،
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔"

 

SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 66 Articles with 35306 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More