اجندرسنگھ بیدی جدید اردو فکشن کے نو رس صف اول کے فنکاروں میں سے ہیں۔ بیدی نے اپنے افسانے میں عام معاشرتی زندگی کی حقانیت کو بیان کیا ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع اسی معاشرے کا جیتا جاگتا کردار ہوتا ہے ۔ راجندر سنگھ بیدی یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کھتری سکھ اور والدہ ہندو برہمن تھیں ۔ راجندر سنگھ بیدی کو کم عمری سے ہی پڑھنے کا شوق تھا ۔ انٹر میڈیٹ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ، مگر والد کی بیماری اور پھر موت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ راجندر سنگھ بیدی نے دس سال ڈاک خانے میں ملازمت کی ، اور ریڈیو اسٹیشنوں سے منسلک رہے۔ لاہور میں " سنگم پبلشرز لیمیٹیڈ" 1947 کے ہنگاموں میں دہلی پہنچے اور پھر جموں ریڈیو سے منسلک ہوئے ۔ یہ عظیم افسانہ نگار 1985 میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ تصانیف: دانہ و دام ، گرہہن ، کوکھ جلی ، اپنے دکھ مجھے دے دو ، لاجونتی وغیرہ ۔ ادبی تعارف: بیدی نے ناول اور کئی ڈرامے بھی لکھے مگر ان کا اصل میدان افسانہ ہے ۔ انہوں نے اپنا افسانوں سفر " بھولا" سے شروع کیا ، جو کہ 1936 میں شائع ہو کر مقبول عام ہوا ۔ راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ لاجونتی اردو کے شاہکار افسانوں میں سے ایک ہے ۔ "ایک چادر میلی سی" بیدی کی وہ تخلیق ہے جسے کبھی ناول کہا گیا تو کبھی اسے ناولٹ کی فہرست میں شمار کیا گیا تو کسی نے اسے طویل افسانہ کہہ کر پکارا۔ بنیادی طور پر راجندر سنگھ بیدی ترقی پسند افسانہ نگار ہیں ۔ بیدی فنکارانہ حیثیت کے حامل تھے ۔ ان کا تخلیقی دائرہ بہت وسیع تھا ۔ بیدی کی تخلیقی قوت تخلیقی کائنات میں ارتقائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ ان کی کہانیوں میں جنس اور حقیقت کے لوازمات کے بنیادی عنصر تھے ۔ انہوں نے اپنے اس ناول میں حقیقت نگاری سے کام لیا ہے ۔ جس کی وجہ سے پنجاب کے دیہات کی تہذیبی اور ثقافتی صورت حال ابھر کر سامنے آتی ہے جس سے قاری کا ذہن بھی متاثر ہو جاتا ہے ۔ ایک چادر میلی سی ان کا اول اور آخر ناول ہے ۔ یہ ناول پنجاب کے دیہات کے پس ماندہ معاشرے اور سنگھ گھرانے کے معاشی حالات کی نشان دہی کرتا ہے ۔ پورا ناول پنجاب کے کوٹلہ گاؤں کے تانگے والے کی بیوی رانو پر محیط ہے، اور وہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ وہ اپنے دیور کو اولاد کی طرح چاہتی ہے اور تین بچوں کی ماں بھی ہے ۔اس کے شوہر کو شراب کی لت ہے وہ سب سے مارپیٹ کرتا رہتا ہے ۔ تلوکا ایک بد اخلاق کردار ہے وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو ساہوکار کے پاس لے جاتا ہے اسی وجہ سے تلوکا کا ایک دن قتل ہو جاتا ہے اور رانو بیوہ ہو جاتی ہے۔ بیوہ عورت ہندوستانی سماج میں ایک بوجھ اور خراب سمجھی جاتی ہے اور ایسی ہی عورت راجندر سنگھ بیدی کے ناول" ایک چادر میلی سی" کا موضوع بنتی ہے۔ "افسانہ اپنے دکھ مجھے دے دو" بیدی کا بے مثال اور شاہکار افسانہ ہے ۔ اس کا مرکزی کردار بییدی کے اکثر افسانوں کی طرح عورت ہے ۔ اندو کا کردار افسانے کا مرکز ہے جب کہ مدن کا کردار اس مرکز کے محور پر گردش کرتا ہے ۔ بیدی نے اس افسانہ میں انسانی رشتوں کے مابین جذباتی پیچیدگیوں کو نہایت خوب صورتی کے ساتھ پرویا ہے۔ پورا افسانہ ایک عورت کے جذبات و احساسات ، خود سے وابستہ رشتوں کے تئیں اس کی محبت، قربانی، ایثار اور انسانی ہمدردی سے معمور ہے۔ بیدی نے عورت کی فطری نفسیات کو فن کارانہ انداز میں منظرِ عام پر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جملوں کی در و بست اور منظر نگاری کمال کی ہے ۔ استعارات اور علامات کا عمدہ استعمال بھی نظر آتا ہے ۔ یہ بیدی جیسے ماہر افسانہ نگار کے فن کا بین ثبوت ہے۔ ان کے افسانوں کی نوعیت عام آدمی کی زندگی ،سماجی مسائل . (غربت جہالت اور سماجی نابرابری ) ، انسانی نفسیات اورجذبات۔کی گہرائ ہے۔ موضوعات ہندوستانی معاشرت اور پنجابی کلچر کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں زیادہ کرداروں کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیت پر زور دیا ،خارجی واقعات کو داخلی کیفیات سے جوڑا ہے ۔ |