چین ، عالمی کاروبار کے لیے مواقع کی سرزمین

چین ، عالمی کاروبار کے لیے مواقع کی سرزمین
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

جوں جوں چین آئندہ پانچ برسوں کے لیے اپنے نئے منصوبوں کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے، اس کی حیثیت ایک بڑی سرمایہ کاری کی منزل کے طور پر برقرار ہے۔ دنیا بھر کی وہ کمپنیاں جو طویل المدتی اور معیاری ترقی کو ترجیح دیتی ہیں، ان کے لیے چینی منڈی نہ صرف اہم بلکہ نئے ترقیاتی امکانات کے حصول کے لیے ناگزیر رہے گی۔

چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ پندرہویں پانچ سالہ منصوبہ (2026 تا 2030) کے دوران دنیا کے ساتھ ترقی کے مواقع بانٹے گا اور مشترکہ خوشحالی کے لیے کام کرے گا۔ اس منصوبے کی تفصیلی سفارشات، جن میں مختلف شعبوں کی ترقیاتی ترجیحات شامل ہیں، جلد جاری کی جائیں گی ، جو عالمی کاروباری اداروں کے لیے 1.4 ارب آبادی والے ملک میں نئے مواقع تلاش کرنے کا ایک “خزانے کا نقشہ” ثابت ہوں گی۔

چینی معیشت جب اعلیٰ معیار کی ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، تو عالمی کاروباری اداروں کے لیے پیغام واضح ہے کہ چین آج بھی مواقع کی سرزمین ہے، جو عالمی کمپنیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہے۔

چین کی سب سے بڑی طاقت اس کی بے مثال منڈی کا حجم ہے۔ عوام کی بہتر زندگی کے لیے چینی حکومت کا عزم ایک ایسی میگا مارکیٹ کی بنیاد ہے جو مسلسل 16 برسوں سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی درآمدی معیشت ہے۔2021 سے 2025 کے درمیان چین کی اشیا اور خدمات کی درآمدات کا حجم 15 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کرنے کی توقع ہے، جبکہ 2026 تا 2030 کے دوران درآمدات میں مزید توسیع کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔

چین کا متوسط طبقے پر مشتمل 40 کروڑ سے زائد افراد کا گروہ ایک مضبوط قوتِ خرید رکھتا ہے، جو اگلی دہائی میں 80 کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 2024 میں، چین میں 2 کروڑ 16 لاکھ سے زائد نئی صارف مصنوعات رجسٹر کی گئیں ، جو گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ اور 14 فیصد سالانہ اضافہ تھا۔
یہ تبدیلی محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک ایسے طبقے کی نشاندہی ہے جو اب صرف اشیا کے حصول سے آگے بڑھ کر معیار، نفاست اور ذاتی ترجیحات کو اہمیت دے رہا ہے۔عالمی تناظر میں بھی چین کے پاس صارفین کے اخراجات میں اضافے کے بے شمار امکانات ہیں، جو حالیہ برسوں میں حکومتی پالیسی کا اہم ستون بن چکے ہیں۔

چینی حکومت نے خدماتی شعبے میں خرچ بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں اور ٹیلی کام اور صحت کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی ہے۔یہ صارف دوست پالیسیاں بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے مزید کاروباری مواقع پیدا کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، گاڑیوں کی ٹریڈ اِن اسکیم میں غیر ملکی برانڈز، جیسے ٹیسلا، کل فروخت کا تقریباً ایک تہائی حصہ رکھتے ہیں۔

اسی دوران، چین نے بین الاقوامی درآمدی ایکسپو، خدماتیِ تجارت کے عالمی میلے اور بین الاقوامی صارف مصنوعات کی نمائش جیسے پروگراموں کو ایسی اعلیٰ معیار کی منڈیوں میں بدل دیا ہے جہاں عالمی کمپنیاں براہِ راست چینی خریداروں اور تقسیم کاروں سے رابطہ قائم کر سکتی ہیں۔چین کا پھلتا پھولتا ای کامرس نظام بھی عالمی برانڈز کو آن لائن صارفین سے جوڑ رہا ہے۔ پیکنگ یونیورسٹی کی ایک درجہ بندی کے مطابق، جو لاکھوں صارفین کی خریداری ترجیحات پر مبنی تھی، چین کے سرِ فہرست 500 ای کامرس برانڈز میں 17 ممالک کے 156 بین الاقوامی برانڈز شامل تھے۔

عالمی سرمایہ کاروں کے نزدیک چین اب بھی ایک بڑی، منافع بخش اور مواقع سے بھرپور منڈی ہے۔کامیاب غیر ملکی کمپنیاں اب صرف مصنوعات برآمد کرنے کے بجائے خود کو چینی نظامِ معیشت میں ضم کر رہی ہیں ،وہ مقامی تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، اسٹریٹجک شراکت داری قائم کر رہی ہیں، اور صرف برانڈ کی پہچان کے بجائے قدر، جدت اور میراث پر مقابلہ کر رہی ہیں۔
کئی بین الاقوامی برانڈز نے چین کی بدلتی ہوئی مارکیٹ کو سمجھ کر نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔
وال مارٹ نے چین کے ڈیجیٹل نظام سے ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے مقامی شراکت داریوں کے ذریعے صارفین تک رسائی بڑھائی۔ایڈیڈاس نے اپنے چینی شعبے کو مقامی ڈیزائن اور پیداوار کے فیصلوں میں خودمختاری دی تاکہ مصنوعات گھریلو صارفین کے ذوق کے مطابق ہوں ،جبکہ فائزر جیسی عالمی دوا ساز کمپنیاں چین میں نئی تحقیق و اختراع کے مراکز قائم کر چکی ہیں۔ان کمپنیوں کے لیے چین اب محض فروخت کی منڈی نہیں بلکہ اسٹریٹجک اہمیت کا مرکز بن چکا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو ادارے یا کمپنیاں چین میں ابھرنے والے نئے مواقع کو سمجھ کر، گہرائی میں جا کر سرمایہ کاری کریں گے، ان کے لیے چینی منڈی آج بھی دنیا کی سب سے بڑی پرکشش منزل ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1676 Articles with 962165 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More