سرحدوں سے آگے، مکالمے کی راہ پر
(Waseem Akaash, Rawalpindi)
| استنبول میں حالیہ پاک افغان مذاکرات میں نئی پیش رفت خوش آئند ہے۔ |
|
انسان کا انسان سے اور قوموں کا قوموں سے سابقہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔انسانی معاشرے کی بقا و سلامتی اور امن عامہ کے قیام کے لئے مناسب سفارتکاری لائحہ عمل ہمیشہ سے بہترین قوموں کا شعاررہاہے۔انسانیت کے آغاز سے آ ج تک جہاں تلواروں کی جھنکار اور توپوں کی گھن گرج نے صفحات کو سرخ کیا، وہیں کہیں کہیں عقل، تدبر اور مذاکرات کے نازک ہاتھوں نے ان لہو رنگ اوراق پر صلح کے چراغ بھی جلائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بندوق کے دھوئیں میں وقتی فتح ممکن ہوتی ہے، مگر دیرپا امن ہمیشہ مکالمے کی میز سے جنم لیتا ہے۔ گزشتہ ہفتے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات بھی اسی سنہری روایت کا تسلسل ہیں ۔ ایک ایسی کوشش جو شاید آنے والے برسوں میں خطے کے سیاسی نقشے کو نئے رنگ دے۔چھ روز تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں جذبات کی تلخی بھی تھی، سفارتی نزاکت بھی، اور وہ صبر و تدبر بھی جو کسی سنجیدہ مکالمے کی روح ہوا کرتا ہے۔ ابتدا میں فضا میں سرد مہری تھی، الفاظ میں سختی تھی، مگر جب نیت میں اخلاص ہو اور منزل امن ہو، تو راستے خود بخود کھلتے جاتے ہیں۔ ترکیہ اور قطر کی ثالثی نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ اگر اعتماد کے پل باندھے جائیں تو سب سے نازک دھاگہ بھی رشتے کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ مذاکرات محض سفارتی سرگرمی نہیں تھے، بلکہ ایک قومی تقاضا تھے۔ کئی برسوں سے سرحد پار دہشت گردی نے پاکستان کے امن و استحکام کو زخمی کیا ہے۔ فتنہ الخوارج (TTP) اور فتنہ الہندوستان (BLA) جیسے گروہوں نے نہ صرف پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کیا بلکہ پورے خطے کے امن کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ پاکستان کا موقف واضح اور غیر مبہم ہے اور وہ یہ کہ افغان سرزمین کو کسی صورت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ یہی مطالبہ استنبول مذاکرات کا بنیادی محوربھی رہا۔ابتدائی ایام میں جب ماحول میں بے اعتمادی کی فضا غالب تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ بات آگے نہیں بڑھے گی، تب افغان وفد کی درخواست پر مذاکرات کا تسلسل قائم رکھنا پاکستان کی بالغ نظری اور امن پسندی کا مظہر تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مکالمے نے ضد پر غلبہ پایا، اور تدبر نے تلخی کو پسِ پشت ڈال دیا۔چھ روزہ مذاکرات کے بعد جو عبوری رضامندی سامنے آئی، اس میں کئی امید افزا پہلو موجود ہیں۔ سب سے نمایاں نکتہ وہ مشروط سیزفائر ہے جو افغان سرزمین سے دہشت گردی نہ ہونے کی شرط سے جڑا ہوا ہے۔ گویا اب افغان طالبان اپنے وعدوں کے مطابق ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کے خلاف عملی کارروائی کے پابند ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام کا قیام اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ آئندہ کے معاہدے محض کاغذی وعدے نہیں رہیں گے، بلکہ ان پر عملدرآمد بھی ممکن بنایا جا سکے گا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستانی وفد نے جس متانت، مدلل انداز اور قومی وقار کے ساتھ اپنے موقف کا دفاع کیا، وہ سفارتکاری کے ایک نئے باب کی علامت ہے۔ پاکستان کا مؤقف نہ کمزوری کی علامت تھا، نہ وقتی دباؤ کا نتیجہ ,بلکہ ہر بات دلیل سے مزین اور ہر مؤقف بین الاقوامی اصولوں کے مطابق نظر آیا۔دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ امن کی خواہش کمزوری نہیں، بلکہ طاقت اور اعتماد کی دلیل ہے۔پاکستان کی نئی سفارتی حکمتِ عملی کو بجا طور پر “امن کے ساتھ وقار” کا فلسفہ کہا جا سکتا ہے ۔ایک ایسا توازن جو کسی ذمہ دار ریاست کے کردار کو جلا بخشتا ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ وہ امن چاہتا ہے، مگر اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اس موقع پر ترکیہ اور قطر کا کردار بھی قابلِ ستائش ہے، جنہوں نے نہ صرف میزبانی کا حق ادا کیا بلکہ فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ عمل امتِ مسلمہ کے درمیان تعاون اور بھائی چارے کی اس روایت کو زندہ رکھتا ہے جو آج کی دنیا میں بڑی حد تک مفقود ہو چکی ہے۔ یہ مذاکرات دراصل محض پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بحالی کا معاملہ نہیں، بلکہ پورے خطے کی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر یہ عبوری رضامندی ایک مستقل معاہدے میں ڈھلتی ہے تو اس کے اثرات وسطی ایشیا سے خلیج تک محسوس کیے جائیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن کا مطلب دہشت گردی کے خلاف مشترکہ محاذ، تجارتی راہداریوں کی بحالی، اور خوشحالی کے نئے در وا ہونا ہو گا۔اس تمام عمل میں ایک اور پہلو بھی نہایت حوصلہ افزا ہے اور وہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی باہمی یکجہتی ،کیونکہ داخلی اختلافات اپنی جگہ، مگر قومی سلامتی کے معاملے پر اتفاقِ رائے کا یہ مظاہرہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں اور خودمختاری پر کسی بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔ دشمنوں کے لیے یہ اعلان ہے کہ پاکستان اب ردِعمل نہیں، حکمتِ عملی سے چلنے والا ملک بن چکا ہے۔ بالاشبہ یہ عبوری رضامندی ابھی ایک پہلا قدم ہے، منزل نہیں ہے مگر اصل امتحان اس پر عملدرآمد کا ہے۔ پاکستان نے اپنی جانب سے امن کی بنیاد رکھ دی ہے، اب وقت ہے کہ افغان قیادت بھی اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔ تاریخ ان قوموں کو یاد رکھتی ہے جو امن کے لیے بہادری سے قدم بڑھاتی ہیں اور پاکستان نے یہ قدم عزت و وقار کے ساتھ اٹھایا ہے۔اگر استنبول سے اُبھرتی یہ امید برقرار رہی، تو آنے والی نسلیں اس دن کو یاد کریں گی کہ پاکستان نے اپنی سرحدوں کی حرمت برقرار رکھتے ہوئے، امن کو ایک اور موقع دیا۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں قوموں کی پہچان بنتی ہے اور جب وہ جنگ کے شور میں بھی صلح کی صدا بلند کرتی ہیں۔
|
|