جرمنی کے افغان پناہ گزین: نقدی کے لیے ’’دستبرداری‘‘ اور ’’چھوٹے چھوٹے پروازیں‘‘
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
جرمنی نے پاکستان میں پھنسے افغان پناہ گزینوں کو ایک نیا، دلچسپ مگر ذرا تنقیدی چیلنج پیش کر دیا ہے: اگر آپ جرمنی کے انسانی ہمدردی کے پروگرام سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جائیں، تو ہم آپ کو نقدی اور بنیادی سہولیات دے دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے جرمنی کہہ رہا ہو، "ویزا کا انتظار کرو یا یورو کے بدلے خواب بیچ دو!"یہ اسکیم بہت سادہ ہے: ایک شخص کے لیے 6,500 یورو، خاندان کے لیے 10,000 یورو۔ اور اس کے بدلے میں، جرمنی کہتا ہے، "چلیں، آپ وہاں نہ جائیں، ہم بھی آپ کو یہاں یاد رکھیں گے۔"
اب ذرا مزاحیہ پہلو پر غور کریں: تقریباً 600 افغان شہری اس پروگرام میں ہیں، اور 60 انسانی حقوق کے محافظ کے نام سے لسٹ میں شامل ہیں۔ تو جرمنی کہہ رہا ہے کہ اگر آپ انتظار کرنے کے بجائے تھوڑا سا پیسہ لے کر اپنی قسمت بدلنا چاہتے ہیں، تو یہ آپ کے لیے ایک "نیا راستہ" ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ واقعی نیا راستہ ہے، یا صرف ایک چھوٹا سا ’’مالیاتی زپ لائن‘‘ ہے جس پر افغان پھنس گئے ہیں؟اسی دوران، جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ اس ہفتے چوتھا گروپ افغان پناہ گزین پاکستان سے ہنوور پہنچے گا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی خبر ہے کہ تقریباً 1,900 افغان ابھی بھی منتقلی کے انتظار میں ہیں۔ یعنی جرمنی کے پاس مسلسل نیا پناہ گزین ہے، لیکن وہ بظاہر کہہ رہا ہے، "ہم اب یہ پروگرام ختم کرنے والے ہیں، اور دیکھیں کس کے پاس نقدی کی جیب بھری ہوئی ہے!"
مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ جرمنی کی حکومت، جو ایک طرف افغانوں کو داخلے کی اجازت دے رہی تھی، اب یہی کہہ رہی ہے کہ وہ اس رضاکارانہ داخلے کے پروگرام کو ختم کرنے یا کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جیسے کہ وہ کہہ رہی ہو، "ہم نے آپ کو پہلے دعوت دی، اب بس، بس، بس!" اور یہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ ماضی کے وعدوں کی قانونی پابندی بھی دوبارہ دیکھ رہی ہے۔اب ذرا حقیقت کی طرف چلیں: یہ پروگرام طالبان کے اقتدار کے بعد شروع ہوا تھا، تاکہ وہ لوگ جو جرمن یا بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کر چکے تھے، محفوظ رہ سکیں۔ یعنی یہ پروگرام بنیادی طور پر افغان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور مقامی عملے کے لیے تھا۔ لیکن اب جرمنی نے ایک دلچسپ مشورہ دے دیا: "اگر تمہیں انتظار کرنا پسند نہیں، تو نقدی لو اور پروگرام سے باہر نکل جاؤ!"
یہاں سے مزاحیہ منظر کھلتا ہے: افغان شہری ایک طرف جرمنی کی "نقدی کی پیشکش" دیکھ رہے ہیں، دوسری طرف وہ دیکھ رہے ہیں کہ جرمنی نے اپنی پروازوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ پچھلے ہفتے صرف 14 افراد ہنوور پہنچے، اس ہفتے چوتھا گروپ آ رہا ہے، اور باقی 1,900 ابھی بھی پاکستان میں انتظار کر رہے ہیں۔یہ منظر ایسا ہے جیسے جرمنی کہہ رہا ہو: "ہاں، ہم تمہیں وہاں لے جائیں گے، مگر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں، اور اگر تم صبر نہیں کر سکتے، تو نقدی لے کر واپس بیٹھ جاؤ۔"
مزید طنزیہ پہلو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جرمنی سے کہہ رہی ہیں: "یہ سب بہت اچھا ہے، لیکن آپ کے مالی مراعات والے اقدامات کمزور افغانوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ محفوظ منتقلی چھوڑ دیں۔" یعنی جرمنی کا نیا پروگرام، جو بظاہر مدد کے لیے تھا، اب کسی حد تک ‘‘مالیاتی دباؤ’’ کے مترادف بن گیا ہے۔جرمنی کا رویہ، ایک طرف انسانی ہمدردی اور دوسری طرف مالیاتی ترغیب، افغان شہریوں کے لیے ایک مزاحیہ مگر پریشان کن صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ افراد جو چار سال انتظار کر رہے ہیں، اور جو اب بھی پاکستان میں منتظر ہیں، ان کے لیے یہ ایک الجھن ہے: کیا وہ صبر کریں یا نقدی لے کر جرمنی کے خواب کو ٹال دیں؟
یہ تمام منظرنامہ ایک دلچسپ طنزیہ سوال چھوڑتا ہے: کیا جرمنی واقعی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کر رہا ہے، یا یہ صرف ایک مالیاتی کھیل ہے جس میں افغان شہری کسی بھی صورت میں جیتنے یا ہارنے کی توقع میں پھنسے ہیں؟
اس کہانی کا سب سے مزاحیہ پہلو یہ ہے کہ جرمنی، جو پہلے افغان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مقامی عملے کی حفاظت کے لیے پرعزم تھا، اب خود ہی کہہ رہا ہے کہ "بس اب انتظار کی حد، یا نقدی لو!" اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان شہریوں کو یا تو جرمنی کی پرواز کا انتظار کرنا ہے، یا نقدی کی سہولت لے کر اپنی قسمت بدلنی ہے۔
اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی نے ہر گروپ کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بھیجا ہے۔ پچھلے گروپ 14 افراد کے تھے، اب چوتھا گروپ آ رہا ہے، اور باقی 1,900 پاکستانی زمین پر منتظر ہیں۔ یہ منظر ایسے لگتا ہے جیسے جرمنی کہہ رہا ہو: "ہم آپ کو آہستہ آہستہ لے جائیں گے، اور اگر آپ جلدی چاہتے ہیں تو نقدی کے بدلے پروگرام سے باہر نکل جائیں!"
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ جرمنی کا یہ پروگرام ایک طرف انسانی ہمدردی کا مظاہرہ ہے، لیکن دوسری طرف یہ مالیاتی دباؤ اور محدود ترسیل کے کھیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ افغان شہری اب ایک ایسے فیصلے کے دہانے پر ہیں، جہاں ان کے پاس یا تو صبر، یا نقدی، اور یا تو جرمنی منتقلی کے خواب کے درمیان انتخاب کرنا ہے۔
اور ہم، بیرونی ناظرین کے طور پر، صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مزاحیہ مگر سنجیدہ کھیل کس طرح آگے بڑھے گا، اور جرمنی کے اقدامات افغان پناہ گزینوں کی زندگیوں اور مستقبل پر کس حد تک اثر ڈالیں گے۔
#Germany #AfghanRefugees #Pakistan #RelocationProgram #CashIncentives #HumanRights #Taliban #MigrationPolicy #RefugeeCrisis #Kikxnow #CriticalComedy #EvacuationDrama |