اُمت کے لیے رونے والا نبی۔ محمد ﷺ
(haseeb ejaz aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشر اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی محمد ﷺ کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی اور کو نہ ملا۔ آپ ﷺ وہ ہستی ہیں جنہیں ربّ العالمین نے “رحمةً للعالمین” قرار دیا، یعنی ساری دنیا کے لیے رحمت۔ “لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ، حَرِيصٌ عَلَيْكُم، بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ”(التوبہ: 128)یعنی تمہارے اندر سے ایک رسول آیا، جس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کے لیے بے حد حریص ہے، اور ایمان والوں پر نہایت مہربان اور رحیم ہے۔ یہ آیت نبی ﷺ کے دل کی گہرائیوں کو بیان کرتی ہے۔ وہ نبی جو اپنی اُمت کے لیے راتوں کو جاگتے، دن میں محنت کرتے، اور آنسو بہاتے رہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب آپ ﷺ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا تلاوت کی: “فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي”، تو آپ کے لبوں سے بے اختیار نکلا: “اے میرے رب! میری اُمت! میری اُمت!” اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس وقت اللہ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا: “محمد ﷺ سے پوچھو وہ کیوں رو رہے ہیں؟” جب نبی ﷺ نے عرض کیا کہ “میری اُمت کی فکر ہے یا ربّ”، تو اللہ نے فرمایا: ”ہم تجھے تیری اُمت کے بارے میں راضی کریں گے اور تجھے ناراض نہیں کریں گے“۔یہ منظر ایسا ہے جو پتھر دل کو بھی پگھلا دے۔ وہ نبی جنہیں ربّ کی رضا حاصل ہے، وہ اپنی اُمت کے لیے رو رہے ہیں، فکرمند ہیں، اور درد سے لبریز ہیں۔ یہ عشق اور شفقت کا وہ درجہ ہے جس کی مثال انسانیت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ نبی ﷺ نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں قربانی دی۔ مکہ کے تپتے ریگزاروں میں جب کفار نے آپ ﷺ پر ظلم و ستم کیے، آپ ﷺ نے صبر کیا۔ کنکریاں، کانٹے، طعنے، زخم، مگر زبان پر شکوہ نہیں، دل میں نفرت نہیں، بلکہ دعا تھی: “اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، وہ نہیں جانتے۔” طائف کا واقعہ آج بھی ایمان تازہ کر دیتا ہے۔ جب پتھر برسائے گئے، جب خون جوتوں تک بہہ نکلا، جب جسم تھکن سے لرز گیا، اس وقت بھی نبی ﷺ نے فرمایا: “اے اللہ! اگر تو مجھ سے راضی ہے تو مجھے ان کی پرواہ نہیں۔” یہ وہ الفاظ ہیں جو قربانی کی انتہا بیان کرتے ہیں۔ ہجرت کے وقت بھی آپ ﷺ نے اپنی تمام آرام و آسائش چھوڑ دی۔ مکہ، جہاں بچپن گزرا، جہاں یادیں تھیں، وہاں سے نکلتے وقت فرمایا: “اے مکہ! تُو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے، مگر تیرے لوگوں نے مجھے رہنے نہیں دیا۔” مدینہ پہنچ کر بھی چین نہیں ملا، بلکہ ایک نئی امت کی تشکیل کا بوجھ آپ ﷺ کے کندھوں پر تھا۔ پھر بھی چہرے پر مسکراہٹ، دل میں دعا، اور لبوں پر کلمہِ شکر۔ نبی ﷺ کی قربانی صرف جسمانی نہیں تھی بلکہ روحانی بھی تھی۔ آپ ﷺ نے اپنی راتیں امت کے لیے دعاؤں میں گزاریں۔ روایت میں آتا ہے کہ ایک رات حضرت عائشہؓ نے دیکھا کہ نبی ﷺ سجدے میں دیر تک رو رہے ہیں، یہاں تک کہ زمین آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ جب پوچھا: “یا رسول اللہ! آپ تو مغفور ہیں، پھر اتنا کیوں روتے ہیں؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: “کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور میں اپنی امت کے گناہوں کے لیے دعا نہ کروں؟”۔ایک موقع پر فرمایا: “ہر نبی کو ایک دعا دی گئی ہے، جو ضرور قبول ہوتی ہے۔ ہر نبی نے اپنی دعا دنیا میں مانگ لی، لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہے۔” یہ ہے وہ محبت جو موت کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔ نبی ﷺ نے صرف دعا نہیں کی، بلکہ اپنی امت کے لیے عملی طور پر مثال بن کر دکھایا۔ میدانِ بدر، احد، خندق ، ہر جنگ میں آپ ﷺ نے صفِ اوّل میں رہ کر قیادت کی۔ کبھی اپنے صحابہ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ جنگِ اُحد میں جب کفار کے تیروں نے آپ ﷺ کو زخمی کیا، چہرہ لہولہان ہوا، خون بہا ، مگر آپ ﷺ کے لبوں پر بددعا نہیں بلکہ دعا تھی: “اے اللہ! میری قوم کو بخش دے، یہ نہیں جانتے۔” مدینہ میں ریاست قائم ہونے کے بعد بھی آپ ﷺ کی ترجیح امت کی بھلائی رہی۔ آپ ﷺ نے یتیموں، بیواؤں، غلاموں، اور مسکینوں کے حقوق واضح کیے۔ خود بھوکے رہتے مگر دوسروں کو کھلاتے۔ کئی دنوں تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا، مگر جب کوئی سائل آتا تو خالی ہاتھ واپس نہ جاتا۔ ایک مرتبہ ایک شخص آیا اور کہا: “یا رسول اللہ! میرے پاس کچھ نہیں۔” آپ ﷺ نے اپنی چادر دی اور فرمایا: “اسے بیچ لو، اور اپنے اہلِ خانہ پر خرچ کرو۔” یہ وہ نبی ہیں جنہیں خزانے پیش کیے گئے مگر انہوں نے دنیا کی زیب و زینت سے دامن بچایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے دنیا سے کیا لینا دینا، میں تو ایک مسافر کی مانند ہوں جو سایہ دار درخت کے نیچے چند لمحے بیٹھ کر آگے بڑھ گیا۔” اور پھر وہ دردناک منظر جس میں نبی ﷺ کی امت کے لیے تڑپ کھل کر سامنے آتی ہے، آخری لمحات۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے اپنی اُمت کی فکر ہے، نماز کی فکر ہے، عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی فکر ہے۔”آخری لمحوں میں بار بار فرمایا: “اُمتی، اُمتی ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے: “میری مثال اس شخص کی مانند ہے جس نے آگ جلائی، اور پروانے اُس میں گرنے لگے، اور میں تمہیں آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر تم خود آگ کی طرف دوڑ رہے ہو۔” یہ تمثیل بتاتی ہے کہ نبی ﷺ ہمیں جہنم سے بچانے کے لیے کیسے دن رات محنت کرتے رہے۔روایت ہے کہ آپ ﷺ نے دو قربانیاں کیں، ایک اپنی ذات اور اہلِ بیت کے لیے، اور دوسری اپنی اُمت کے اُن افراد کے لیے جو قربانی نہیں کر سکتے۔ یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ اپنی امت کے کمزور اور غریب طبقے کا بھی درد رکھتے تھے۔یہی نہیں، نبی ﷺ کی محبت کا اثر اُن کے صحابہ پر بھی نمایاں ہوا۔ جب کبھی صحابہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ اُمت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں، وہ بھی ساتھ رونے لگتے۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! آپ ہمارے لیے اتنا رو رہے ہیں؟” فرمایا: “عمر! اگر تم جان لو کہ میں اپنی اُمت سے کتنا پیار کرتا ہوں تو تم بھی میرے لیے رونے لگو گے۔” یہ محبت، یہ شفقت، یہ قربانی، صرف تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ آج بھی زندہ حقیقت ہے۔ آج جب دنیا مادیت میں ڈوبی ہوئی ہے، جب اُمت ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے، نبی ﷺ کی وہ صدائیں پھر سنائی دیتی ہیں ۔ “اے میری اُمت! ایک ہو جاؤ، عدل کرو، رحم کرو، محبت پھیلاؤ۔” نبی ﷺ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دین صرف عبادت کا نام نہیں بلکہ قربانی، خدمت، اخلاص، اور انسانیت کی بھلائی کا نام ہے۔ وہ نبی جو خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے، جو اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ مانگتے، وہ آج بھی ہمارے دلوں میں محبت کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ اے اُمتِ محمد ﷺ! سوچو، وہ نبی جو تمہارے لیے روئے، جاگے، زخمی ہوئے، ہجرت کی، اپنے دشمنوں کو معاف کیا ۔ کیا ہم نے ان کی محبت کا حق ادا کیا؟ کیا ہم نے اُن کی سنتوں پر عمل کیا؟ کیا ہم نے اُن کے مشن کو آگے بڑھایا؟ اب وقت ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺ کی اُس قربانی کو یاد کر کے اپنی زندگیوں کو بدلیں۔ اپنے دلوں میں امت کا درد پیدا کریں، عدل قائم کریں، رحم دل بنیں، اور اپنے عمل سے دکھائیں کہ ہم اُن نبی کے اُمتی ہیں جو ساری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔دعا ہے کہ اے اللہ! ہمیں نبی ﷺ کی محبت نصیب فرما، اُن کی سنتوں پر عمل کی توفیق دے، اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والا بنا، اور روزِ قیامت اُن کے حوضِ کوثر پر اُن کا دیدار نصیب فرما۔آمین، ثم آمین۔
Haseeb Ejaz Aashir | 033440767567 |