مختصر مگر اہم بات ( پہلی کہانی "اچھے دن آنے والے ہیں " )

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

( مختصر مگر اہم بات)

( اچھے دن آنے والے ہیں )
( پہلی کہانی )

محمد یوسف میاں برکاتی

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج سے ہم ایک سلسلہ " مختصر مگر اہم بات " کے نام سے شروع کرریے ہیں جس میں مختصر مگر اہم بات کو ہم کسی واقعہ ، کسی حکایت یا کسی حقیقی یعنی سچی کہانی میں پڑھیں گے اور جو ہماری زندگی کو صحیح راستے پر چلنے میں ہماری مدد بھی کرے گا اور رہنمائی بھی آج اس سلسلہ کی پہلی تحریر لکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ہماری آج کی تحریر کا موضوع ایک ایسا جملہ ہے جو استعمال ہوتا ہے اپنے آپ کو حوصلہ دینے کے لیئے اپنے آپ کو برے حالات میں تسلی دینے کے لیئے دنیا سے لڑنے کے لیئے اور گزرتے ہوئے کٹھن اور مشکل وقت سے اچھے دنوں میں داخل ہونے کی امید کے لیئے یعنی اپنے آپ سے اور اپنے آپ سے جڑے ہوئے لوگوں سے کہنا کہ گھبرایا نہیں کرتے کیوں کہ " اچھے دن آنے والے ہیں " لیکن اگر ہم آج کے دور کی بات کریں تو مشکل حالات میں یہ سوچنا اور اس پر عمل کرنا کم کم نظر آتا ہے کیونکہ آج کل کے دور میں لوگوں میں صبر ، برداشت اچھی امید پر زندگی گزارنے کی عادت بہت کم نظر آتی ہے اور جب کبھی مشکل میں آجائیں تو پریشان ہوجاتے ہیں بس یہ ہی سوچ کر اس موضوع کا انتخاب کیا ہے تاکہ مصیبت اور پریشانی میں اچھے دنوں کے آنے والی امید کی سوچ سے لوگوں کو فائدہ حاصل ہوسکے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک شخص جس کا نام احمد تھا جو پڑھا لکھا بھی تھا لیکن غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کم وبیش پچاس سال کی عمر میں اپنی بیوی کے ساتھ غربت کی زندگی گزارنے میں مصروف عمل تھا اور ایک کار واش کمپنی میں کاروں کو دھونے اور صاف کرنے کا کام کرتا تھا اس کی بیوی اکثر بیمار رہا کرتی تھی لیکن گھر کا کرایہ گھر کے بلز اور راشن کا قرضہ اتارنے کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا اور اس کے پاس اپنی بیوی کے علاج کے لیئے کچھ بھی نہیں بچتا لیکن اس کی ایک عادت تھی کہ وہ ہر وقت اپنی بیوی کو پریشان دیکھ کر اس سے ایک ہی بات کرتا تھا کہ تم فکر نہ کرو " اچھے دن آنے والے ہیں " ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں پر آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہیں جیسے احمد پر آئی ہوا یوں کہ ایک دن وہ اپنے کار واش سینٹر میں کام میں مصروف تھا تو ایک کار وہاں پر آکر کھڑی ہوگئی اور اس میں سے ایک شخص باہر نکل کر کہنے لگا کہ مجھے اپنی گاڑی واش کروانی ہے تو احمد نے کہا کہ ٹھیک ہے سر آپ گاڑی کی چابی دیجئے اور کم و بیش ایک گھنٹے کے بعد آکر اپنی گاڑی لے جایئے گا میں دھو کر صاف کردوں گا تو وہ شخص غصہ ہوگیا اور کہنے لگا کہ کیا تم صاف کرو گے میری گاڑی ؟ تو احمد نے کہا کہ جی میں کروں گا تو وہ شخص کہتا ہے کہ تم اپنی عمر دیکھو تم اس عمر میں کیا اچھی طرح سے گاڑی صاف کرسکو گے مجھے اس پر بھروسہ نہیں ہے کسی اور کو بلائو تو احمد نے کہا کہ جناب ابھی سارے لوگ مصروف ہیں بس میں ہی فارغ ہوں تو اس شخص نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر اپنے منیجر کو بلائو اتنے میں مینجر بھی آپہنچا اور کہنے لگا کہ سر احمد یہاں کا سب سے پرانا اور اچھا کاریگر ہے تو اس شخص نے غصے میں کہا کہ ٹھیک ہے لیکن کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیئے اصل میں اس شخص کو احمد سے نہ جانے کیوں الرجی تھی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد وہ شخص آیا تو گاڑی پوری طرح سے چمک رہی تھی لیکن اس شخص نے جان بوجھ کر چپکے سے ایک جگہ گاڑی پر نشان ڈال کر چیخنے لگا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نہ کہتا تھا کہ اب اس عمر میں اس کا کام نہیں ہے لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی اس شخص کے شور مچانے پر مینیجر بھی آگیا اور کہنے لگا کہ کیا ہوا ؟ تو اس شخص نے کہا کہ دیکھو تمہارے پرانے کاریگر کا کارنامہ تو احمد نے کہا کہ سر یہ میری وجہ سے نہیں ہوا میں نے تو گاڑی کو پوری طرح چمکایا تھا لیکن مینجر نے اس کی بات نہیں سنی اور اس نے احمد کو اسی وقت فارغ کردیا احمد افسردہ ہوکر وہاں سے چلاگیا جبکہ وہ شخص اس طرح مسکرایا جیسے اس نے کسی معاملے میں بڑی فتح حاصل کرلی ہو ۔احمد پریشانی میں گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے پوچھا آج جلدی آگئے تو اس پر احمد نے ساری بات بتائی یہ سن کر اس کی بیوی بھی پریشان ہوگئی لیکن پھر احمد کہنے لگا کہ کوئی بات نہیں بس
" اچھے دن آنے والے ہیں " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب احمد نئی نوکری کی تلاش میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک خاتون ایک گاڑی کے پاس کھڑی ہے اور پریشان دکھائی دے رہی ہے تو احمد نے پوچھا میڈم کیا معاملہ ہے کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہیں ؟ تو وہ بولی کہ میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے کیا یہاں قریب میں کوئی پنکچر بنانے والا ہے ؟ تو احمد نے ٹائر دیکھتے ہوئے بولا کہ اگر آپ برا نہ مانے تو میں بدل دوں ؟ تو وہ خاتون مسکرائی اور کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو کیا بات ہے لیکن کیا آپ بدل سکیں گے ؟ تو احمد مسکرایا اور بولا جی ضرور جب احمد ٹائر بدل رہا تھا تو اس خاتون نے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہو ؟ تو احمد نے مختصراً اپنی کہانی سنائی اور کہانی سناتے سناتے ٹائر چینج ہوگیا اس خاتون کو احمد کی کہانی سن کر بہت افسوس ہوا اور جاتے ہوئے اس نے اپنا کارڈ احمد کو دیا اور کہا کہ کل صبح میری آفس میں مجھ سے ملنا میں تمہارے لیئے کچھ کرتی ہوں اس پر احمد خوش ہوا اور وہ عورت خداحافظ کہکر چلی گئی جبکہ احمد مسکراتے ہوئے کارڈ کی طرف دیکھ رہا تھا اور آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگلے دن وہ صبح ہی اس خاتون کے بتائے ہوئے ایڈریس پر اس کی آفس پہنچ گیا اس خاتون نے اسے بڑی عزت کے ساتھ بٹھایا اور اپنے آفس کے کام کے بارے میں بتایا کہ اس کی کمپنی مختلف کمپنیوں کے انویسٹمینٹ پر پروجیکٹ تیار کرتی ہے اور ان کی کمپنی کی مارکیٹ ویلیو ایسی ہے کہ ہر کمپنی یہاں انویسٹمنٹ کرنا چاہتی ہے لہذہ اس خاتون نے اب کمپنیوں کی انویسٹمنٹ کی جانچ پڑتال کے لیئے احمد کو سپروائزر بنادیا اور ایک اہم منصب پر فائز کردیا اور یوں احمد ایک اہم پوسٹ پر کام کرنے لگا اور کچھ ہی دنوں میں اپنا ایک مقام بنالیا پھر کچھ دنوں کے بعد ایک بڑی میٹنگ کا بندوبست ہوا جس ملک کی بڑی بڑی کمپنیاں انویسٹمنٹ کی غرض سے آنے والی تھیں اور کس کے ساتھ انویسٹمنٹ کرنی ہے اور کس کے ساتھ نہیں اس کا فیصلہ احمد نے کرنا تھا ساری بڑی بڑی کمپنیوں کے لوگ سپروائزر کے آنے کا انتظار کررہے تھے پھر یکایک احمد اندر داخل ہوا تو سارے لوگوں نے کھڑے ہوکر احمد کا استقبال کیا احمد جیسے ہی صدارت کی کرسی کے پاس آکر کھڑا ہوا تو اس کی نظر اس شخص پر پڑی جو کبھی کارواش سینٹر میں آیا تھا اور احمد کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے اسے نوکری سے نکلوا دیا تھا لیکن اس وقت احمد خاموش رہا پھر ساری فائلز دیکھ کر اس نے اعلان کیا کہ ہماری کمپنی سوائے ایک کمپنی کے سب کے ساتھ انویسٹمنٹ کرنے کو تیار ہے سارے لوگ حیران ہوگئے کہ وہ ایک کمپنی کون سی ہے تو احمد نے اس شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گھمنڈی ، تکبر اور انا کے مارے لوگوں سے انویسٹمنٹ نہیں چاہیئے یہ کہکر وہ کمرے سے باہر نکل گیا اور وہ شخص احمد کو حیران ہوکر دیکھتا رہا کیونکہ اب احمد کے اچھے دن اچکے تھے اور اس کی زبان سےہر وقت نکلتے ہوئے اس لفظ کی رب العزت نے لاج رکھ لی کہ " اچھے دن آنے والے ہیں "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مختصر واقعہ میں ہمیں جو اہم بات معلوم ہوئی وہ یہ کہ کسی انسان کو بھی اپنے سے کمتر نہ سمجھے اور نہ ہی اپنی ضد ہٹ دھرمی اور جھوٹی انا کی وجہ سے کسی کو اتنا نقصان نہ پہنچائو کہ اللہ تعالیٰ وہ ہی نقصان آپ کو لوٹا کر آپ کو شرمندہ کردے یعنی مکافات عمل آپ کے ساتھ نہ ہو جبکہ ایک سب سے اہم بات کا خلاصہ یہ بھی ہوا کہ ہر پریشانی اور مصیبت میں اللہ کا شکر ادا کرکے اچھے دن کی امید رکھنی چاہیئے اور ہمیں اس بات پر مکمل یقین ہونا چاہیئے کہ ہر پریشانی کی رات کے بعد راحت والی صبح ضرور طلوع ہونی ہے یعنی پریشانی والے دن ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ " اچھے دن آنے والے ہیں "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگلے حصے میں پھر ایک منفرد واقعہ لیکر حاضر خدمت ہوں گے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہمیشہ سچ لکھنے ہمیں پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ مجھے دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیئے گا ۔

 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 199 Articles with 185786 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.