امام غزالی ؒ تحریرکرتے ہیں کہ
ایک دن خلفیہ منصور عباسی کے دروازے پر ایک شخص آیا اور دربان سے کہنے لگا
امیر المومنین سے کہو کہ ایک عالم ملنے آیا ہے جس کا نام عاصم ہے وہ او رآپ
ملک شام میں ایک مدرسے پڑھتے رہے ہیں لہذا آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے
تاکہ دوستی کوتازہ کرے دربان نے خلیفہ منصور کو اطلاع دی تو اس نے بلالیا
لیکن اس کی بے ادبی سے تنگ دل ہوا پوچھا کیوں آئے ہو جواب دیا بس پرانی
دوستی کے وسیلے سے آیا ہوں تاکہ دیدار کروں منصور نے اسے ایک ہزار درہم
دیئے وہ شخص درہم لے کر چلاگیا اگلے سال پھر آیا منصور کا ایک بیٹا مرگیا
تھا وہ تعزیت کے لیے بیٹھا تھا یہ شخص بھی لوگوں کے ساتھ داخل ہوگیا اور
سلام کرکے دعادی منصور نے پوچھا کیسے آنا ہوا وہ شخص بولا میں وہی ہوں جو
بچپن میں آپ کے ساتھ پڑھاکرتاتھا منصور نے پانچ سو درہم دیئے جو وہ لے کر
چلا گیا تیسرے سال پھر آیا خلیفہ نے اب پوچھا کہ اب کیسے آئے ہوا اس دفعہ
اسے آنے کا کوئی بہانہ نہ ملا تو کہنے لگا جب ہم اور آپ ایک ساتھ پڑھا کرتے
تھے تو استاد صاحب نے دعائے حاجت یادکرائی تھی میں وہ بھول گیا ہوں اس کی
نقل لینے آئے ہوں خلیفہ منصور جو اس کی بے ادبی سے بہت تنگ آچکاتھا کہنے
لگا اس دعا کے نقل کرنے کی تکلیف نہ اُٹھا میں تین سال سے اللہ سے دعاکر
رہا ہے کہ مجھے تیری درد سری سے بچادے مگر دعاقبول نہیں ہوئی اگر وہ دعا
مستجاب ہوتی تو میں ضرور کبھی کا تجھ سے خلاصی پا چکاہوتا ۔۔
قارئین ہر وہ مسلمان جسے اللہ نے استطاعت دی ہے اس پر زندگی میں ایک حج فرض
ہے حج بیت اللہ وہ مقدس فریضہ ہے کہ جس کے دوران پوری دنیا میں موجود
مسلمان امت مکہ اور مدینہ جاتی ہے اور حج بیت اللہ کے لیے حرم شریف پر
حاضری دینے کے ساتھ ساتھ روضہ رسول پر جاکر آنسوﺅں کا نذرانہ پیش کرتی ہے
ہر رنگ نسل ،ملک اور زبان کا مسلمان وہاں اکٹھے ہوکر عالم گیریت کا وہ عملی
روحانی نظارہ پیش کرتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ
مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح رمضان المبارک کے
روزو ں کے دوران پوری امت اللہ کے حکم کے مطابق بھوکے پیاسے رہ کر عبادات
الہیٰ میں مصروف ہوکر اس بات کی پریکٹس کرتی ہے کہ غریبوں ،ناداروں او
ربھوکے پیاسوں کے دکھ درد کو سمجھا جائے اور ان کی عملی مدد کی جائے اسی
طرح حج بیت اللہ کے موقع پر اور پھر عید الاضحی کے موقع پر یہ عملی مظاہرہ
دیکھنے میں آنا چاہیے کہ ہم غریبوں ،ناداروں اور بھوکوں کا اپنے مال میں جو
حصہ ہے وہ ان تک پہنچائیں کیونکہ یہ دین کا بنیادی سبق ہے کہ متمول
مسلمانوں کے مال میں ناداروں کا حصہ مقررہے اور یہ حکم دیا گیاہے کہ اپنی
ضرورت سے زائد مال غریبوں اور ناداروں میں تقسیم کیا جائے اب اگر اس کا
عملی مظاہرہ کیاجائے تو ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پوری امت میں زکوة لینے
والے ختم ہوجائیں گے لیکن دینے والا مال ختم نہیں ہوگا ۔
قارئین اس وقت مویشی منڈیوں میں رش لگا ہواہے اور باوجود ابلیسی مہنگائی کے
پاکستان اور آزادکشمیر میں صاحب حیثیت لوگ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت زندہ کرنے
کے لیے بکروں ،بیلوں ،دنبوں اور اونٹوں تک کی خریداری میں مصروف ہیں جبکہ
غریب لوگ جو قربانی کرنا افورڈ نہیں کرسکتے وہ مذاقاً یہ کہتے دکھائی
اورسنائی دیتے ہیں کوئی بات نہیں کہ ہم بکر ا یابیل قربان نہیں کرسکتے ہم
عید کے موقع پر مرغی کی قربانی دیں گے خیر یہ تو حسر ت کا وہ پہلو ہے کہ جس
پر ہم ہنس بھی سکتے ہیں اور اگر ایک حساس دل پہلومیں رکھتے ہیں تو اس پر
آنکھیں بھی تر ہوسکتی ہیں ۔
قارئین ہم اپنے کالموں نے اکثر اوقات اعدادوشمارکی روشنی میں یہ ثابت کرتے
رہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک سائبر کمندیں لے کر کون کون سی کہکشائیں
تسخیر کرتے ہوئے کہاں کھڑے ہیں اور ہم جیسے ماجھے گامے کہاں لیٹے ہوئے ہیں
بلکہ لیٹے لیٹے کس طرح مزید اپنے لیے قبریں کھود رہے ہیں ایک طرف ترقی کی
معراج اور دوسری جانب پستی اور تنزلی کا نہ ختم ہونے والا اندھیروں سے پر
سفر ۔۔۔یہ غم اپنی جگہ پر کہ قدرت نے ہمیں فیاضی کرتے ہوئے کن کن نعمتوں سے
نوازا اور ہم نے قدرت کی ان نعمتوں کی کس طرح سے ناقدری کی ۔پاکستان اور
آزادکشمیر دنیا کے وہ خطے ہیں کہ جہاں کھربوں ڈالرزکے قدرتی وسائل بکھرے
پڑے ہیں ،تیل ،گیس ،سونا ،چاندی ،تانبہ ،کوئلہ غرض ہر طرح کی دولت پاکستان
اور آزادکشمیر کے اندر چھپی پڑی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری لیڈر شپ
گزشتہ 64سالوں کے دوران بدعنوانی ،بدمعاشی اور بے غیرتی کے وہ عالمی ریکارڈ
قائم کیے ہیں کہ مملکت پاکستان کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک ہونے کا ایک
انوکھا ریکارڈ بھی مل چکاہے جو قابل شرم ہے ۔حج بیت اللہ اور عید الاضحی کے
موقع پر دلوںسے آہوں کے دعا بھی نکلتی ہے کہ اللہ ہمیں ایک صالح قیادت نصیب
کرے جو شہداءکے اس ملک کو صحیح ڈگر پرچلائے بقول علامہ اقبال ؒ
کشادہ دست ِ کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ
خدا وہ کیاہے جو بندوں سے احتراز کرے
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتاہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
سخن میں سوز الہیٰ کہاں سے آتاہے
یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے
غرور ِ زہد نے سکھلادیا ہے واعظ کو
کہ بندگان ِ خدا پر زبان دراز کرے
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اُڑاکے مجھ کو غبار ِ رہ حجاز کرے
قارئین جتنے بھی دینی تہوار ہم مناتے ہیں اصل ضرورت یہ ہے کہ ان کا فلسفہ
سمجھا جائے عید قرباں کا فلسفہ یہ ہے کہ اپنے رب کے احکامات کی پاسداری
کرنے کے لیے اگر ہمیں اپنی جان مال اور اولادتک کو بھی قربان کرنا پڑتاہے
تو اس سے گریز نہ کیا جائے آج ہمارے لٹیرے حکمران راہبری کے نام پر جو راہ
زنی کررہے ہیں اس سے غریبوں سے روٹی تک چھن چکی ہے اگر جینے کا حق چھین لی
جائے تو یاد رکھیئے مرنے کاحق ضرور استعمال کیاجاتاہے خود کش دھماکوں کے
پیچھے بھی حکمرانوں کے اپنے کرتوت ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
دوکان دار نے گاہک سے کہا کہ یہ چھتری پوری زندگی خراب نہیں ہوگی
گاہگ نے حیرانی سے پوچھا وہ کیسے
دوکان دار نے جواب دیا بس اسے دھوپ اور بارش سے بچاکررکھنا
قارئین ہماری قیادت بھی اسی طرح کے بھاشن دے کر ہماری آنکھوں میں دھول
جھونک رہی ہے آئیے اس دھوکے سے باہر نکلیں ۔۔ |