ہندوستان کے شمال مشرقی علاقے
میں پیدل چلنے والوں کیلئے دریا پر بنایا گیا ایک پل گر نے سے بچوں سمیت کم
از کم تیس افراد کی ہلاکت کا خدشہ جتایا گیاہے۔پولیس کے مطابق یہ حادثہ
ہفتے کی شام شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے ایک دور دراز علاقے میں پیش
آیا جو آسام کے دارالحکومت گوہاٹی سے کم و بیش چھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر
واقع ہے۔اعلیٰ پولیس اہلکار کے آیا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے ٹیلی
فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ تقریبا ستّر افراد دریائے کامینگ پر پیدل
چلنے والوں کے لیے بنائے گئے پل پر موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں وہ
Ghandi pukکیڑے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی دوران پل دریا میں جا
گرا۔گاندھی پک کومقامی لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔یہ کیڑے اس
موسم میں دریا کے پانی کے اوپر اڑتے رہتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اٹھائیس
لوگوں کو بچا لیا گیا جبکہ تین لاشیں نکالی گئیں۔ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے
مطابق پولیس نے مقامی وقت کے مطابق شب ساڑھے آٹھ بجے تک یہ تفصیلات موصول
ہوئیں تاہم صبح تک حادثے سے متعلق مزید معلومات موصول نہیں ہوئیں جبکہ خدشہ
ہے کہ تیس افراد جان سے گئے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس پل کی لمبائی
70میٹر تھی اور دریا سے چالیس فٹ کی بلندی پر تھاجو اروناچل پردیش کے مشرقی
کامینگ ضلع میں سیپا ٹاؤن کو نیو سیپا ٹاؤن شپ سے ملاتا تھاجبکہ یہ پل کافی
پرانا تھا۔اس سے قبل ریاست مغربی بنگال کے دارجلنگ ضلع میں لکڑی کا ایک پل
گرنے سے 31افرادہلاک ہوگئے۔یہ حادثہ ہفتہ کے روز اس وقت پیش آیا تھا جب
بجان باری میں ندی پر بنا لکڑی کا ایک پل ٹوٹ گیا ۔یہ پل پر اس وقت بوجھ
برداشت نہیں کر سکا جب گورکھا لینڈ کی ایک ریلی میں حصہ لینے کے لیے بڑی
تعداد میں لوگ اس پر سے گزر رہے تھے۔اطلاعات کے مطابق ستمبر کے مہینے میں
آئے زلزلے کے بعد سے یہ پل کمزور ہوگیا تھا لیکن آنے جانے کا راستہ میسر نہ
ہونے کے سبب لوگ اسے استعمال کرنے پر مجبور تھے۔2006کے دوران 2دسمبرکی خبر
کے مطابق بہار کے شہر بھاگلپور میں ہاوڑہ سے آ رہی ایک ریل کے 140 سال
پرانے پل گر نے سے بتیس سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ
پل گرا اس وقت گرا جب اس کے نیچے سے جمال پور ہاوڑہ ایکسپرس ٹرین گزر رہی
تھی۔ پل کے گرنے سے ٹرین کا ایک ڈبہ بری طرح متاثر ہوگیا۔مقامی پارلیمانی
رکن شاہنواز حسین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حادثے میں مرنے والوں کی
تعداد 35 ہے۔ٹرین پر پل گرنے کے بعد کافی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے جو اس
بات پر کافی غصے میں تھے کہ خطرناک ہونے کے باوجود اسے توڑنے میں لاپروائی
برتی گئی۔اس حادثہ کے بعد اس روٹ پر ٹرینوں کی آمد و رفت بند کر دی گئی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں پلوں کے ٹوٹنے کے حادثات مسلسل بڑھتے
جارہے ہیںلیکن حکو مت تنبیہہ ہونے کے باوجود کیوں غفلت برت رہی ہے۔تفصیلات
پر یقین کریں توکشمیرسے کنیاکماری تک اورمدراس سے لیکر احمدآباد تک اگر
کوئی بذریعہ سڑک یا ریل سفر کرے تو راستے میں کتنے ہی پل ایسے نظر آئیں گے
جو اپنی شکستہ حالی کا رونا رورہے ہوتے ہیں جن کے آنسو پوچھنے والابھی کوئی
نہیں ۔بہار کے مختلف علاقوںسمیت ریلوے کے پل اب بھی انگریزوں کے زمانے کے
ہیں۔ اکثر کی حالت خراب بتائی جاتی ہے اور لوگ حادثے کے خطرے کا اندیشہ
ظاہر کرتے رہتے ہیں۔برطانوی دور حکومت میں انگریزوں کی کار گزاری کے لئے
بھلے ہی آج ہم ان سے نفرت کرتے ہوں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حفاظت کی
فکر جتنی انہیں ہے اس کے مقابلے اپنی منتخب جمہوری حکومت کو رتی بھر بھی
نہیں ہے چونسٹھ سال سے پہلے وہ ملک کو جمہوریت کے حوالے چھوڑگئے لیکن یہاں
کے باشندوں کی حفاظت کی فکر انہیں آج بھی ہے جبھی تو وہ لگاتار ریلوے کو خط
لکھ کر آگاہ کررہے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں بنائے گئے ریل کے پلوں کو
حکومت ہند فورا منہدم کردے بصورت دیگر نہ صرف ہزاروں ہندستانیوں کی جان کسی
کسی وقت بھی تلف ہوسکتی ہے بلکہ کروڑوں کی مالیت بھی برباد ہوسکتی ہے
برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے ان سیکڑوں پلوں کی میعاد عرصہ دراز قبل
ختم ہوچکی ہے۔دسیوں سال پہلے ہم سے تعلق منقطع کرچکے اور ہزاروں میل دور
بیٹھے انگریز ہماری حفاظت کے لئے مسلسل حکومت کو ہدایتی خطوط ارسال کرتے
رہے ہیں۔برطانوی سرکار ی طرف سے متعدد خطوط اب تک ریلوے کو مل چکے ہیں۔کیسا
المیہ ہے کی ایک طرف تو حکومت بے شمار بدعنوانیوں میں ملوث ہے تو دوسری
جانب ہمارے مبینہ دشمن یعنی انگریزوں کو ہمارے شکستہ حال ریلوے پلوں کی فکر
ستا رہی ہے۔معاملہ گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں بی جے پی کے رکن پارلیمان
پرکاش جاویڈکر نے بھی اٹھایاتھا کہ ملک میں ایسے درجنوں پل آج بھی موجود
ہیں جو کسی وقت بھی ہاتھ کھڑے کر سکتے ہیں جبکہ حکومت اس طرف قطعی متوجہ
نہیں نظر آتی۔قابل ذکر ہے کہ انگریزوں نے اپنے دورحکومت میں بہتی ہوئی
ندیوں پر سینکڑوں پل تعمیر کئے تھے جن میںسے کچھ تو سو سال سے بھی زیادہ
پرانے ہوگئے ہیں۔اس دوران ہندستان میں مسلسل ریلوے حادثے ہورہے ہیں۔ریلوے
کے وزیر ریلوے سفر کو محفوظ بنانے کے لئے بیان بازی سے نہیں چوک رہے ہیں
جبکہ حادثے لگاتار ہوتے چلے جارہے ہیں۔مکھن وزارت ریلوے پر قبضہ کرنے کیلئے
ملک کے موقع پرست سیاستداں سر پہیہ اور پیر گاڑی کرنے سے بھی نہیں
چوکتے۔نتیجے کے طور پردنیا کا سب سے بڑا ریلوے نظام انگریزوں کے ذریعہ
بنائے گئے پر ہی انحصار کرتا ہے۔آزادی کے بعد کتنی ریل پٹریاں بچھی ہیں
‘کتنے ریل پل تعمیر ہوئے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔خاص طور پر ہائی ٹیک
سٹی کا دعویٰ کرنے والی حکومت دہلی کی عین ناک کے نیچے عرصہ دراز قبل
انگریزوں کا جمنا ندی پر بنا ہواشکستہ حال پرانا لوہے کا پل آج بھی اپنی
پیٹھ پر سے گزرتی ہوئی ریلوں اور ٹریفک کے بوجھ کو برداشت کررہا ہے۔اس کے
لرزے ہوئے بازوں اور لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگیں کسی کو نظر نہیں آرہی ہیں حتی کہ
اس کا پانی میں ڈوبتا ہوا وجود اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اطراف کی
سڑکیں مسلسل تعمیر ہورہی ہیں لیکن انتظامیہ کی غفلت کی بدولت برطانوی دور
کا یہ پل آج بھی نہ صرف کام کرنے پر مجبور ہے ۔ممکن ہے یہاں بھی کسی حادثہ
کا انتظار ہو۔ |