عین ممکن ہے کہ اب بھی کچھ
دانشور اٹھیں او راپنے نوجوان ہیروز کے لئے نرم گوشہ اختیار کرنے کا حکم
نمامشورہ جاری فرمادیں، کیونکہ جب کبھی یہ’ معصوم نوجوان ‘میدان میں شکست
سے دوچار ہوجائیں تو انہیں قوم اور بعض دانشوروں کی طرف سے سخت تنقید
کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔بے شک انسان خطا کا پتلا ہے ، مگر کچھ غلطیاں ناقابل
برداشت ہوجائیں اور معافی کی سرحدیں پار کرجائیں تو سزا ضروری ہو جاتی ہے۔
کرکٹ اتنامنافع بخش ”کاروبار “ بن چکا ہے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں
کرسکتا، ان ہیروز کی لاکھوں روپے تنخواہ ہوتی ہے، اور ہر میچ کا معاوضہ الگ
ادا کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان حضرات کا ”کاروباری اور مظہرمجیدی بندوبست“
اس کے علاوہ ہوتا ہے ۔
ہم ایک جذباتی قوم ہیں، خوش ہوتے ہیں تو فریق ثانی کو سر پر بٹھالیتے ہیں،
ناراض ہوتے ہیں تو نفرتوں کی آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں، اگر کسی کھلاڑی
سے کبھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ ہوگیاتو اس کو صدر اور وزیراعظم اپنے
محلات میںمدعوکرتے ہیں، انواع واقسام کے کھانوں سے تواضع کی جاتی ہے،
انعامات واکرام سے نوازا جاتا ہے ، اعزازات عنایت کئے جاتے ہیں۔ پذیرائی کا
یہ عمل رکنے کا نام نہیں لیتا ، حکومتی عہدیداروں کے بعد مختلف سرکاری
یانیم سرکاری عہدے حرکت میں آتے ہیں، لاکھوں روپے کیش انعامات دیتے ہیں،
پھر ”مخیر“حضرات بھی اس نیکی کے کام میں چند لاکھ روپے ڈال کر ثواب دارین
کے مستحق قرار پاجاتے ہیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے اعلیٰ کارکردگی دکھانے
والا کھلاڑی کروڑ پتی بن جاتا ہے، (حالانکہ عموماً ہمارے کرکٹر کروڑ پتی ہی
ہیں)۔
کوئی بھی کھلاڑی جب نام کما لیتا ہے تو اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ ملک کا
نام روشن کرنے کے لئے تن من کی بازی لگا دے گا، یا لگا رہاہے،(دھن کا اس
میں کوئی ذکر نہیں) اب بھی بہت سے کھلاڑی ایسا ہی سوچتے اور کرتے ہونگے،
مگر جب سے کرکٹ نے کھلاڑیوں کو کروڑ پتی بناناشروع کیا ہے، تب سے حب الوطنی
نامی چڑیا کہیں دانہ چگنے چلی گئی ہے، اب اوپر سے دعویٰ وہی ملک کی خدمت ہی
ہوتا ہے اور اندر سے مال بناؤ پروگرام پر عمل کیاجاتا ہے، خالی عزت کی
اہمیت کم ہوچکی ہے ، بلکہ عزت کا معیار بھی روپیہ ہی ہے ۔ حسد کی آگ ہے کہ
بجھنے کا نام نہیں لیتی ، دوسروں کو کروڑ پتی دیکھ کر راتوں رات امارت کی
منزلیں حاصل کرنے کی خواہش نے اپنے نوجوان ہیروز کا اخلاق تباہ کردیا ہے۔
کس کا فرض تھا کہ ان کھلاڑیوں پر نظر رکھتا؟ ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی
ذمہ داری کس پر تھی؟ ان کی تربیت کا ذمہ دار کون تھا؟اس فرد نے اپنا فرض
کیوں پور انہیں کیا ؟ اس کو مجرمانہ غفلت کی سزا کون دے گا؟ جس ٹیم کے ساتھ
ٹیکنیکل لوازمات کی پوری فوج جاتی ہے ، اس کا حساب کتاب کون دے گا؟ دراصل
جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہو تو کون کس کی اصلاح کرے ، ایک چور یا ڈاکو
دوسرے کو شرافت یا دیانت کی تلقین کس طرح کرسکتا ہے؟ کرپشن کی اس دوڑ میں
ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے بے تاب ہے۔ یہی کھلاڑی اگر یہ
کارنامہ پاکستا ن میں سرانجام دیتے تو اب بھی ’عزت‘ کے ساتھ کرکٹ کھیل رہے
ہوتے ، کہ یہاں کبھی کبھار ہی کو ئی قانون کی گرفت میں آتا ہے۔ویسے بھی جب
اوپر سے نیچے تک ہر بااختیار فرد کرپشن کے متعفن جوہڑ میں دونوں ہاتھوں سے
مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہے تو ہمارے نوجوان کرکٹر کیوں پیچھے رہتے ، وہ
بھی ایسے میں کہ انہوں نے اوائل عمری میں ہی کروڑوں کے خواب دیکھے اور ان
کی تعبیر پائی۔اب حالت یہ ہے کہ اس حالت میں کوئی پاکستانی دنیامیں منہ
دکھانے کے قابل نہیں اور اصلاح کی کوئی صورت بھی نہیں، چند روز کا رونا
دھونا ، کچھ دنوں تک تنقید اور اس کے بعد زندگی معمول پر ، نہ ماضی سے سبق
سیکھنے کا یہاں رواج ہے اور نہ مستقبل کی بہتری کی منصوبہ بندی۔ |