ہر طرف مکان نظر آرہے ہیں ان میں
سے کچھ مکان کچے ہیں اور کچھ پکے ہیں مکانوں میں مکین بھی موجود ہیں لیکن
یہ پوری آبادی خاموش ہے اس شہر میں گہرا سکوت طاری ہے شاید اسی لئے اس شہر
کو شہر خموشاں کہا جاتا ہے کل تک جو زندہ تھے جو زندگی کی رنگینیوں میں مگن
تھے جو محفلیں سجایا کرتے تھے زندگی کو اپنے انداز میں گزارا کرتے تھے زمین
پر اکڑ کر چلا کرتے تھے موت کا شاذ ونادر جب خیال آبھی جاتا تو یہ کہہ کر
اور سوچ کرکہ ابھی تو لمبی عمر پڑی ہے ابھی ہم نے کہاں مرنا ہے موت کو بھلا
کردنیا کے بکھیڑوں میں گم ہوجایا کرتے تھے دنیا کہ جھمیلوں میں آخرت کوبھی
بھلا دیتے تھے وہ مرنے کے بعد شہر خموشاں میں جابسے ہیں یہاں سبھی دوستوں
اور اعزا و اقارب نے دفنا کر بھلا دیا ہے کبھی کوئی بھولا بھٹکا دوست اس
طرف آنکلے تو شاید فاتحہ پڑھ کر بخش دے ،
میں گھر کے پاس قبرستان میں موجود گھوم پھر رہا ہوں کوئی ذی روح نظر نہیں
آرہا،ہر سوخاموشی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کئی قبریں طوفان بادباراں نے مٹا
دی ہیں اور کئی پر جھاڑیاں سی اگ چکی ہیں اس گہرے سکوت میں عجیب سی وحشت
چھائی ہوئی ہے اور سوچ رہا ہوں کہ کل تک جب یہ لوگ زندہ تھے تو یہ بھی اپنی
زندگی میں مست اور مصروف ہوکر اس آنے والی موت کو بھولے ہوئے ہوں گے اور
دنیا کے رنگینیوں اور روشنی میں مگن ہوں گے کہ موت نے آدبوچا ہوگاکبھی کہیں
سے کوئی پرندے کی پھڑپھڑاہٹ اس خاموشی کوتوڑتی اور ماحول کو پراسرار بنا
دیتی،بوسیدہ قبروں اور بکھرتے پتھرکے درمیان سے گزرتا میں دنیا کی بے ثباتی
پرغور کر رہا تھا کہ جب کوئی عزیزرشتہ دار اس دنیا فانی سے رخصت ہوتا ہے تو
کیسے ماتم کیا جاتا ہے آنسو بہائے جاتے ہیں پھر مٹی میں دفنا کر اسے بھول
جایا جاتا ہے میں شہر خموشاں کے مکینوں سے ان کے حالات کے بارے پوچھنا
چاہتا تھا لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کون جواب دے گا؟کہ ان کے اوپر کیا گزر رہی
ہے ؟کئی خوبصورت اور پیارے دوست بھی شہر خموشاں میں جابسے تھے ان کی قبروں
کے پاس سے گزرتے ہوئے دل سے بے اختیار ان کی مغفرت کے لئے دعانکلی اور ساتھ
اک آہ کے ساتھ یہ صدا نکلی،
زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے
مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہ ہے تماشانہیں ہے
چہار سو چھائی خموشی میں آہستہ آہستہ قبروں پر لکھے کتبوںکا پڑھتا آگے
بڑھتا رہا اور ذہن میں ان گنت سوال آتے اورجاتے رہے کہ یہ لوگ بھی کبھی
زمین پر یوں ہی ہماری طرح چلتے ہوں گے اور بے خبر موت نے انہیں اپنے شکنجے
میں جکڑ لیا ہوگا کئی لوگوں کو تو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کا بھی وقت
نہیں ملا ہوگاکافی دیر شہر خموشاں میں رہا کہ شاید کوئی ذی روح نظر آجائے
لیکن کوئی نہیں آیا ،میں سوچنے لگا کہ آج ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم نے
مرجانا ہے اس فانی دنیا کو خیر باد کہ دینا ہے اور اللہ کے حضور پیش ہوکر
اپنا حساب دینا ہے یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ دنیا ایک امتحان ہے اور یہ ہمارا
ایک عارضی ٹھکانہ ہے لیکن پھر بھی ہم موت کو بھلا کر مستقبل کے اور کئی
سالوں کے پروگرام بنانے میں مصروف ہیں
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
ساماں سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
قبرستان سے واپسی پر میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہمیں عبرت حاصل کرنے کے لئے
کبھی کبھی قبرستان ضرور جانا چاہئے کیوں کہ ایک دن ہمیں بھی وہیں جانا ہے
ویسے حدیث نبوی ﷺ کے ایک مفہوم کے مطابق عبرت کے لئے قبروں پر جانے کا حکم
دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب رحم فرمائے۔۔۔آمین |