حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے کہ تمام انصار میں حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ عنہ سب سے زیادہ مالدار
تھے . وہ تمام مال اور جائیداد میں بیرحیٰ نام باغ کو جو مسجد نبویۖ کے
سامنے تھا سب سے زیادہ پسند کرتے تھے. نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم بھی
اکثر اس باغ میں جایا کرتے تھے اور اس کے کنویں کا عمدہ پانی پیا کرتے تھے
. جب یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: '' جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ،
ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے.''(آل عمران)
حضرت ابوطلحہ رضی اﷲ عنہ سے حاضر ہو کر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! اﷲ تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے
اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال یہی بیرحیٰ نامی باغ ہے. لہٰذا میں اس امید
میں کہ جو بھلائی ﷲ کے پاس ہے وہی میرے لئے جمع رہے میں باغ کو اﷲ کی راہ
میں صدقہ کرتا ہوں . نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار ہے، جس طرح
چاہے اس کو تقسیم کردیں. نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوکر فرمانے
لگے. واہ واہ یہ بہت ہی فائدہ مند مال ہے. اس سے لوگوں کوبہت فائدہ ہوگا .
پھر فرمایا : ابوطلحہ ! میری رائے یہ ہے کہ تم اس باغ کو اپنے رشتہ داروں
میں تقسیم کردو. عرض کیا : یارسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم بہت اچھا اور
پھر اپنے رشتہ داروں اور بھائیوں میں تقسیم کردیا.
بخاری شریف و مسلم شریف،مسند احمد ، |