بلحاظ نسل یہ عرب تھے اور ان کا
والد سنان بن مالک یا ان کا چچا سلطنت ایران کی طرف سے حاکم ابلہ تھا ان کی
رہائش موصل کے متصل تھی. اہل روما نے اس علاقے پر حملہ کیا. اس وقت صہیب
رضی اﷲ عنہ بہت ہی کم عمر تھے ، پکڑے گئے پھر قبیلہ کلب میں سے کسی نے ان
کو خرید کر مکہ میں فروخت کردیا. عبداﷲ بن جدعان نے ان کو آزاد کردیا یہ
مکہ ہی میں رہنے لگ گئے .ان کا چہرہ بہت سرخ رنگ کا تھا . رومی زبان خوب
جانتے تھے. یہ اور عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہما ایک ہی دن میں داخل اسلام
ہوئے تھے.
حمران بن ابان جو حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں.
صہیب رضی اﷲ عنہ کے چچیرے بھائی لگتے تھے. انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے بعد ہجرت کی. قریش نے کہا کہ تم خود بھی چلے اور اپنا مال بھی،
یہاں بیٹھ کرکمایا ہے ، لے چلے. صہیب رضی اﷲ عنہ نے اپنا مال قریش کے حوالے
کردیا . کہتے ہیں کہ آیت '' ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اﷲ''
کانزول انہی واقعہ پر ہوا ہے. صہیب رضی اﷲ عنہ کی نشست و برخاست قبل از
نبوت بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہتی تھی. نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے صہیب رضی اﷲ عنہ کو سابق الروم ، سلمان رضی اﷲ عنہ کو سابق
فارس اور بلال رضی اﷲ عنہ کو سابق حبشہ فرمایا ہے. ایک حدیث میں ہے نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جوکوئی اﷲ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے
وہ صہیب سے محبت کیا کرے. ایسی محبت جیسی والدہ کو اپنے بچے سے ہوتی ہے سفر
ہجرت میں یہ اور علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ دونوں ہم سفر تھے. ان کے مزاج میں
ظرافت تھی. ایک روز نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کھا رہے تھے صہیب رضی اﷲ عنہ
بھی شامل ہوگئے. حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری آنکھ دکھتی ہے پھر
بھی کھجور کھاتا ہے انہوں نے عرض کیا کہ میں تو دوسری طرف کے جبڑے سے کھا
رہا ہوں جس طرف کی آنکھ نہیں دُکھتی . نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کھل کھلا
کر ہنس پڑے.
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے زخمی ہوجانے کے بعد حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ کو
امام نماز مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ جب تک کسی خلیفہ کا تقرر نہ ہو
صہیب رضی اﷲ عنہ نماز پڑھایا کرے. ان کا انتقال شوال 39 ھ میں بعمر 73 سال
مدینہ منورہ میں ہوا.
تفسیر ابن کثیر |