جاپان پر گرایا جانے والا بم
معمولی بم نہ تھا۔جیسے ہی بم گرانے والا جہاز واپس پلٹابم گرنے سے قبل ہی
پھٹ گیا۔ایسا لگا جیسے آتش فشاں پھٹ پڑا ہو۔اور شہر کی ہر چیز ملبے میں بدل
گئی۔تیسرے دن جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی کا بھی وہی حشر کیا گیا۔اور
جاپان کو سرینڈر کرنے کو کہا گیا اور دھمکی دی گئی کی اگر جاپان نے ہتھیار
نہ پھینکے تو جاپان کے دوسرے تمام شہروں کا بھی یہی حال ہو گا۔یوں جاپان نے
غلامی کی دستاویزات پے دستخط کر دیے اور جنگ کا اختتام ہو گیا۔ جاپان کے
تباہ شدہ شہروں کو دیکھ کے پر امن انسانیت کانپ اٹھی۔اور جب امدادی ٹیمیں
جاپان کے تباہ شدہ شہروں میں پہنچیں تو ایک کیمیائی ردعمل ان کا انتظار کر
رہا تھا۔اور پہنچنے والی امدادی ٹیمیں بھی سائیڈ افیکٹ کا شکار ہوئیں اور
فوری طور پر کوئی امدادی کام شروع نہ ہو سکا۔جدید ایجادات سے فائدہ اٹھاتی
تیزی سے آگے بڑھتی دنیا بے بس دکھائی دینے لگی اور تمام دنیا کے پر امن
ممالک جنگ کی ہولناکیوں سے پریشان نظر آئے۔اور امن کے ممکنہ قیام کےلیئے
ایک عالمی ادارے کی ضرورت نظر آئی۔اور UNOکا قیام عمل میں آیا۔دنیا میں
بسنے والے ہر خود مختار ممالک پر اس کی رکنیت لازم کر دی گئی۔سب سے پہلے
ہارنے والے ممالک کا فیصلہ کیا گیا۔جاپان پر عسکری فوج بنانے پر پابندی
عائد کر دی گئی جبکہ جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔اور آیندہ کسی
بھی ملک کو اپنی عسکری جنریشن پاور بڑھانے کیلیئے اقوام متحدہ کی منظوری کو
ضروری قرار دیا گیا۔لوگوں کا خیال تھا کہ برطانیہ کی جنگ کے دوران برطانوی
فائیٹر پائیلٹوں نے فضائی جنگ جیت کر جرمنی کے خلاف برطانیہ کو فتح دلائی
تھی۔لیکن برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کے مطابق ملک کو بچانے کے عمل میں
ایک اور بڑی چیز کا ہاتھ تھا ۔وہ تھی ریڈار دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں
اتحادی فو جیوں کو محفوظ رکھنے میں جس طرح اچانک پنسلین نے کردار ادا کیا
اسی طرح ریڈار بھی اچانک منظرِعام پر آیاگویا ریڈارجنگ میں استعمال کرنے کی
غرض سے ایجاد نہیں کیا گیا اور نہ ہی رابرٹ واٹسن واٹ نے جنگی مقاصد کو ذہن
میں رکھ کر اس پر کام کا آغاز کیاریڈار کا بنیادی اصول کافی حد تک وہی ہے
جس کے تحت چمگاڈریں سامنے آنے والی چیزوں کا سراغ لگاتی ہیں ایک انٹینا
ریڈیو لہریں نشر کرتا ہے اور جو راستے میں آنے والی کسی چیز سے ٹکرا کر
واپس پلٹتی ہیں ۔اس طرح یہ اندازہ لگانا ممکن ہوتا ہے کہ وہ چیز کتنی دور
ہے۔جب ہٹلر کے فضائی طیارے یکے بعد دیگرے برطانوی فوجوں کے تنکے بکھیررہے
تھے تو ان کے حملوں کو روکنے کی غرض سے اس پر کام اور تیز ہو گیا1939ءمیں
ایک ہائی پاور مائیکروویو ٹرانسمیٹرکے ساتھ جائنٹ کرکے ریڈار کو برطانوی
فضائیہ میں شامل کر کے جرمن جنگی طیاروں کا راستہ روک لیا گیا ۔برطانیہ کو
لڑائی میں جہاز بالکل درست سمت بھجوانے کی صلاحیت حاصل ہو گئی اور جرمنی کو
صرف رات کے وقت پروازیں کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔اقوامِ متحدہ کے وجود میں
آنے جاپان پر پابندی اور جرمنی کو دو حصوں میں بانٹ کر کیااتحادی ممالک نے
ہتھیار رکھ دیے امریکہ کے بم گرانے کے بعد اس کے اتحادی روس ،فرانس
وبرطانیہ اس کھوج میں لگ گئے کہ جاپان پر گرایا جانے والا وہ ہلاکت خیز
ہتھیار کیا تھااس میں ہلاکت خیزی بڑھانے کے لئے وہ کیا چیز استعمال کی
گئی۔دشمن کے پاس ہتھیار کی نوعیت ہی معلوم نہ ہو تو اس سے بچاﺅ کیسے ممکن
ہے تب تک ایٹم کے بنیادی فارمولے پر کام مکمل ہو چکا تھا۔ مختلف ممالک کے
سائنسدان اپنی لیبارٹریزمیں دن رات یورینیم پر تجربے کر رہے تھے ۔بم کی
تیاری میں اہم ترین عنصر پلوٹونیم کی تیاری تھا جو فطری حالت میں نہیں ملتی
لیکن وہ یورینم کی طرح ری ایکشنزکا ایک سلسلہ پیدا کرنے کے قابل ہے ایٹم بم
کو کارآمد بنانے والاری ایکشن فِشن(انشقاق۔Fission)کہلاتا ہے انشقاق یا
فِشن کا عمل اس وقت ہوتا ہے جب نیو کلیئس(ایٹم کا مرکز)دو برابر حصوںمیں شق
ہو جا ئے یعنی پھٹ جائے ۔ ایک مرتبہ جب نیوٹران یورینیم کے ایٹم کو توڑ دے
تو اس کے ٹکڑے دیگر نیوٹرانز کو توڑتے ہیں اور ان کے ٹکڑے مزید ایٹموں کویہ
سلسلہ اسی طرح بڑھتا جاتا ہے یہ سلسلہ وار ری ایکشن ایک سیکنڈ کے لاکھویں
حصے میں ہو جاتا ہے اور اس کے دوران خارج ہونے والی توانائی کئی کروڑ وولٹ
توانائی جتنی ہوتی ہے انشقاق یا فشن کے عمل میںحرارت اور تابکاری کی بہت
بڑی مقداریں پیدا ہوتی ہیں۔اور خارج ہونے والی تابکاری انسانوں کے لئے سب
سے مہلک ہے ۔اس طرح یکے بعد دیگرے روس،فرانس،برطانیہ و چین ایٹمی طاقت بن
گئے اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہلاکت خیزایٹمی طاقت والے
یہ پانچ مما لک ویٹو کی پا ور پر قابض ہو گئے۔ پاکستان جیسے غریب ملک
جواپنی ضرورت کی چھو ٹی چھو ٹی چیز یں بھی دوسرے ممالک سے منگواتا ہے ایٹمی
طاقت کا مہنگا سودا کیوں کرنا پڑا؟
( جاری ہے) |