اگر امریکہ کی کسی گمنام
اور ناقابل اعتبار ادارے سے ہندوستان کے بارے میں کوئی منفی رجحان فرضی طور
پر بھی شائع ہوجائے تو بغیر اس کے محرکات جانے ملک کے تمام ذرائع ابلاغ
سنجیدہ ہوجاتے ہیں خواہ وہ مستقبل میں دوسال بعد وزرات عظمی سے متعلق کوئی
سروے ہی کیوں نہ ہو۔ دراصل ہندوستانی شہری اپنی منفی باتوں پرخود تنقید
کرتے ہیں مگرشاید اپنی احساس کمتری کے باعث اپنی مثبت چیزوں پر کبھی کھل کر
نہیں بولتے۔ مالی یا نقدی بحران سے نبرد آزما رہنے والے امریکہ اور یوروپ
اقتصادی محاذ پر اپنا دبدبہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے
اعلٰی عہدوں پر تقرری ہو یا بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر کاروبار کے لئے
اپنی شرائط منوانے کی بات ہو ‘ ان کے تیور کبھی ڈھیلے نہیں پڑتے۔ اسٹینڈرڈ
اینڈ پورسStandard & Poor's ’ایس اینڈ پی‘ نے امریکی کریڈٹ ریٹنگ ٹرپل
اےAAA سے کم کرکے ڈبل اے پلسAA+ کر دی تو امریکہ انتظامیہ اس سے اتنا ناراض
ہوئی کہ اس نے اس درجہ بندی ایجنسی کے سربراہ کو وقت سے پہلے ریٹائر ہونے
پر مجبور کر دیا لیکن ہندوستان‘ جس کی ترقی کی شرح گزشتہ کئی سال سے 8 فیصد
کے آس پاس چل رہی ہے اور جس کے تمام بازاروں کی مسلسل توسیع ہو رہی ہے ‘ اس
کی درجہ بندی جوں کی توں بیB کی سطح پر ہی رکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ترقی کی
شرح ذرا بھی پھسلنے پر اس کی درجہ بندی گھٹا دینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
علم اقتصادیات کے نہ جاننے والے نہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور اقتصادی
جنگ کا ہے اور نہ ہی اس سے واقف ہیں کہ یہ درجہ بندی کیسے ہوتی ہے۔محلے کے
چودھری کسی بھی شخص کے بارے میں اس کی حیثیت کے مد نظر صحیح یا غلط ترجمانی
کرتے ہوئے پرچونئے کی نگاہ میں اس کی حیثیت متعین کروادیتے ہیں جس کو سامنے
رکھتے ہوئے وہ اپنے گاہک کو ادھار مال بھی فروخت کردیتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی
گورکھ دھندہ ہے ان درجہ بندی ایجنسیوں کا۔حیرت ہے کہ ہندوستان نے بین
الاقوامی پلیٹ فارموں پر درجہ بندی کے حوالے سے کبھی کوئی ناراضگی نہیں
دکھائی۔ آخر کیوں؟ یہ سوال اس وقت زیادہ غور طلب ہے کیونکہ ایک طرف بڑے
ممالک کی معیشت ڈگمگائی ہوئی ہے تو دوسری جانب ہندوستان اس بات پر پریشان
ہے کہ اس کی ترقی کی شرح یا شرح نموGDPکہیں 8 فیصد سے نیچے نہ آ جائے۔ ایسے
میں یہ سوال پیدا ہونا فطری امرہے کہ کیا ہندوستان کی درجہ بندی کیاصحیح
طریقے سے ہو رہی ہے؟جبکہ درجہ بندی طے کرتے وقت ایجنسیاں پانچ پہلوؤں پر
خاص توجہ دیتی ہیں۔ پہلا ، کل جی ڈی پی یا شرح نمو اور اس کی ترقی کی شرح۔
دوسرے، جی ڈی پی کے نقطہ نظر میں قرض۔ تیسرے ، مارکیٹ کی توسیع اور قرض
دینے کی حالت کیسی ہے۔ چوتھے ، فی کس آمدنی۔ اور پانچویں ، نقدی کی دستیابی
اور کرنسی کی حالت۔ ان تمام پیمانوں پرتولیں یا کسوٹی پرجانچیں تو امریکہ
کی حالت درست نہیں ہے۔
اب بھی اے کی درجہ بندی سے لطف اندوز ہو رہے امریکہ کی مالی حالت اتنی اچھی
نہیں ہے جتنی کہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 2010 کے آخر میں امریکہ کا
کل قرض 580 14ارب ڈالر تک پہنچ گیا ، جو اسی سال اس کے 14530 ارب ڈالر کے
خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) سے زیادہ ہے۔ ظاہر ہے ، اٹلی اور بلجیم کی طرح
امریکہ بھی بھاری قرض میں دباہوا ملک بن گیا ہے۔ یہ قرض لوٹانے کے لئے
امریکہ کو ہر سال اپنی ترقی کی شرح چار سے پانچ پرسےٹ رکھنی ہوگی مگر وہ
بمشکل 2 سے 3 فیصدکی شرح ترقی حاصل کر پا رہا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ قرض
چکانے کے لئے اسے مزید قرض لینا ہوگا۔ اس وجہ سے اس کی کرنسی یعنی ڈالر
شدیدنشیب و فراز سے گذررہی ہے۔ یہی حال یوروپی ممالک کا ہے جنہیں اپنی
کرنسی یورو کو اوپر لانے کے لئے طرح طرح کے اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس کے
باوجود دونوں کو ہی اے کی درجہ بندی حاصل ہے۔
جبکہ ان ممالک کے برعکس ہندوستانی معیشت ہر سال اوسطا 8 پرسنٹ کی شرح سے
بڑھ رہی بلکہ 2024 ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔ غیر ملکی قرض جی ڈی پی کے
مقابلے میں 17.3 فیصدہے۔ ریاستوں اور مرکز پر دیسی قرض کل جی ڈی پی کا
21.2فیصد ہے۔ اس طرح کل قرض جی ڈی پی کے نقطہ نظر میں 38.5 پرسنٹ ہے۔ فی کس
آمدنی 45 ہزار روپے پر پہنچ گئی ہے اور اگلے تین سال میں اس کے ایک لاکھ
روپے تک پہنچنے کی امید ہے جبکہ مالی خسارہ فی الحال 44.6 فیصد ہے۔ مطلب یہ
کہ تمام کوششوں کے باوجود اس فرق کو مٹانے کی کوشش کے لئے ہندوستان کو ہر
سال تقریبا تین فیصد اضافی قرض لینا پڑ رہا ہے۔ اسے کنٹرول یا قابوحاصل کی
ہوئی صورتحال کہا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حصص مارکیٹ میں درج حصص
کی کل قیمت تقریبا 48 لاکھ کروڑ روپے پر پہنچ گئی ہے۔ دیگر مارکیٹوں کی بھی
توسیع ہو رہی ہے ، خاص طور پر مالیاتی خدمات کی۔ خدمت سیکٹر کا جی ڈی پی
میں حصہ 50 فیصد سے زیادہ کا ہو گیا ہے۔ غیر ملکی کرنسی کے ذخیرے 320 ارب
ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جبکہ سالانہ ایکسپورٹ 250 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کا فلوFLOW ہر سال اوسطا 70 ارب ڈالر کا
ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت کی بنیاد مضبوط ہے اور
وہ کسی بھی صورت میں اپنا قرض لوٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہاں دلیل دی جاتی ہے کہ آبادی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے جی ڈی پی کا
سائز کافی کم ہے مگر دوسری طرف اس بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ
ہندوستان کا بینکنگ اور مارکیٹ سسٹم کافی مضبوط ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ
اورکاموڈٹیCOMMODITY مارکیٹ میں اگر کبھی کمی بھی آئی تو اکثر اس کی بنیاد
عالمی واقعات رہی ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی کرنسی کی بات ہے تو یہ کبھی سننے
میں آیا کہ ہندوستان نے روپے کو روکنے کے لئے پالیسی سطح پر کوئی ردوبدل کی
ہو۔ آزادی کے بعد سے روپے کی قیمت گھٹانے یا بڑھانے کے لئے کوئی پایسی پر
مبنی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ یہ رجحان بتاتا ہے کہ ہندوستان کی گھریلو اور
عالمی تجارت متوازن رفتار سے چل رہی ہے۔
اگرواقعتا درجہ بندی ایجنسیاں ہندوستان کی معیشت کا صحیح اندازہ کرنا چاہتی
ہیں تو انہیں 2 باتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ پہلی یہ کہ مارکیٹ کو ریگولیٹ
کرنے کا طریقہ۔ دوسری، مارکیٹ کے کام کرنے کی صلاحیت۔ امریکہ یا یوروپی
ممالک کی طرح یہاں بینکنگ یا مالی ایجنسیوں پر حکومت کی پکڑ ڈھیلی نہیں ہے۔
بے شک امریکہ یا یوروپی ممالک کے مقابلے میں ہندوستانی منڈیوں کا سائز
چھوٹا ہے مگر وہاں کی طرح ان میں کوئی بلبلایا سوراخ نہیں پایا جاتا ہے۔
آنے والے وقت میں اقتصادی شعبے میں ہندوستان اور چین جیسے ممالک کو تسلط
حاصل ہونے والا ہے۔ ایسے میں درجہ بندی ایجنسیوں کو تعصب سے نکل کر ایسی
درجہ بندی کے عمل کو اپنانا ہوگا جس میں دباؤ کم اور سچائی زیادہ نظر آئے۔
امریکہ اور اٹلی کی اول درجہ بندی کے بعد بھی ان کو مالی بحران سے باہر آنے
کے لئے ہندوستان اور چین جیسے ممالک کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ کیا درجہ
بندی ایجنسیوں کا نظریہ بدلنے کے لئے اتنا کافی نہیں ہے؟ |