چارمنگ چاچا نہرو

14نومبرجواہر لال نہرو کے جنم دن پر چیلنڈرز ڈے کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے کیونکہ جواہر لال نہرو بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے اور اسی لیے مرحوم بچوں میں بے حد مقبول بھی تھے۔ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو جن کو چاچا نہرو سے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان سے میری پہلی ملاقات 14اگست 1957میں ان کے دولت خانہ جس کو اس وقت (آنند بھون)جو کہ آج کل تین مورتی بھون کے نام سے جانا جاتا ہے، وہاں پر ہوئی تھی۔ میں اس روز علی گڑھ سے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ جو کہ’بال سبھا‘کے ایک کیمپ کے ساتھ آیا تھا جس کواس وقت کے بال سبھا کلب یا بچوں کا کلب کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کے کرتا دھرتا مرحوم قیصر نقوی جن کو ہم سب بچے اکثر قیصر بنڈی کے نام سے جانتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ ہی ایک کھادی کی بنڈی پہنا کرتے تھے، ان کی کوششوں کی بدولت علی گڑھ سے دہلی گھومنے آئے تھے تو مرحوم قیصر نقوی صاحب نے ہماری ملاقات چاچانہرو سے کروائی تھی۔ ہم سب چھوٹے چھوٹے بچے بس میں جب علی گڑھ سے دہلی آنند بھون پہنچے تو ہم سب کو سب سے پہلے گیٹ پرسیکورٹی گارڈ نے چیک کیا اور پھر ایک ایک کرکے ہم سب تقریباً پچاس بچے گھر میں داخل ہوئے جہاں پر ہم سب کوآنند بھون کے ورانڈے میں زمین پر بٹھادیا گیا اور صرف پانچ منٹ کے اندر ہی چاچا نہرو اندر سے ہماری طرف آئے اور آتے ہی سب بچوں سے الگ الگ پیار سے گلے ملنے لگے اور سب سے الگ الگ ان کے نام اور کلاس وغیرہ کے بارے میں پوچھنے لگے۔ مجھ سے بھی جب چاچا نہرو نے گلے مل کرمیرا نام اور کلاس کے بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو جواب دیا تو پھر وہ بولے کہ کیا تم پڑھائے کے علاوہ کچھ کھیل ویل میں بھی دلچسپی رکھتے ہو یا نہیں؟ میں نے کہا جی ہاں چاچانہرو میں کرکٹ کھیلتا ہوں اسی طرح سے انہوں نے سب سے کچھ نہ کچھ الگ الگ سوال وجواب کیے۔ مگرایک بچے کو جو کہ ہم سب میں اس وقت سب سے چھوٹا تھا اور کافی پیارا (Cute)بھی تھا۔اس کو اپنی گود میں بٹھالیااور اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام پیارے بتایا۔جب کہ اس کا نام پاشا نقوی ہے۔چاچانہرو نے پھر اس بچے سے پوچھا کہ تم نے کبھی کوئی ہوائی جہاز دیکھا ہے تواس نے جواب دیا کہ میں نے کبھی بھی کوئی جہاز نہیں دیکھا۔ پھر چاچا نہرو کو نہ معلوم کیا سوجھی کہ انہوں نے پیارے سے دوسرا سوال یہ کیا کہ کیا تم کبھی ہوائی جہاز میں بیٹھے ہو۔تو پھر وہ پیارا سا معصوم بچہ گھبرا گیا اور چاچانہرو کی شکل کی طرف تعجب سے گھورنے لگا تو پھر چاچا نہرو نے دوبارہ پوچھا کہ کیا تم کبھی ہوائی جہاز میں بیٹھے ہو۔ تو پھر غصے کی حالت میںوہ بچہ بوکھلا کر بولا کہ آپ بھی کیا انسان ہیں کہ مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں کبھی ہوائی جہاز میں بیٹھا ہو۔ میں نے آپ کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ میں نے جب کوئی ہوائی جہاز دیکھا ہی نہیں تو پھر میں اس میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں؟ اس جواب پر ہم سب کے سب ہکا بکا رہ گئے اور سچ مچ چاچا نہرو بھی تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئے اور پھر بعد میں اپنی گود میں سے اس بچے کو فوراً نیچے اتار دیا۔ مگر وہ بچہ پیارے جلدی سے بھاگ کرمیرے پاس آکر بغل میں بیٹھ گیا اور چاچا نہرو کو گھورتا رہا کہ یہ بھی کیا انسان ہیں کہ ایسے سوال کرتے ہیں جس کا جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔چاچار نہرو کے ساتھ اس دن ان کی بیٹی اندرا گاندھی جی اپنے دونوں بچوں کے سنجے اور راجیو گاندھی کو ساتھ لے کرہمارے پاس آئیں۔راجیو اور سنجے دونوں ہی اس وقت تین پہیوں والی سائیکل پر سوار ہوکر آئے اورہمارے سامنے دونوں بچے اپنی اپنی سائیکلوں پر برابر گھومتے رہے اور اندرا جی ہلکی ہرے رنگ کی ساڑی میں بالکل خاموش کھڑی رہیں اور کوئی بھی سوال ہم سب بچوں سے نہیں کیا۔چاچا نہرو نے سب کو پھر شربت پلوائی اور مٹھائی وغیرہ بھی کھلوائی۔

ہمارے ساتھ جو لڑکے لڑکیاں14اگست 1957کو چاچا نہرو سے ملنے دہلی گئے ان پچاس بچوں کے نام تو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں مگر ہاں دماغ کے کونے میں بسی ہارڈ ڈسک میں جو نام یاد آرہے ہیں وہ ہیں ہمارے دوست آصف نقوی جو اب اے ایم یو میںپروفیسر ہیں، ڈاکٹر زویا زیدی،(معروف شاعرہ)ان کی چھوٹی بہن صبا زیدی(پروڈیوسر آل انڈیا ریڈیو و بی بی سی)شمع نقوی پرویز، انجم نقوی مرحوم، عارف نقوی(جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی)، پردیپ سکسینہ ،معروف آرٹسٹ(دہلی)،پریتی سکسینہ دہلی، ستیش کمار، کپل کمار، سردار جسپال سنگھ، ڈیوڈ چارلس، اوزمینڈ چارلس، پریم کمار، پروفیسر بھاردواج مرحوم (اے ایم یو جیولوجی ڈپارٹمنٹ)، مرحوم کے پی سنگھ( سابق صدر ہندی اے ایم یو)، پروفیسر مشیر الحسن(جے ایم آئی) ونود چوہان، نواب واجد حسن، نواب ماجد حسن منو، نواب عباس حسن اورڈ اکٹر جلیس الرحمن وغیرہ شامل تھے۔ باقی دوست آج میری یاد داشت سے باہر ہیں اس لیے ان کا ذکر نہیں کرسکا مگر ہاں ہم سب لڑکے لڑکیاں چاچا نہرو سے مل کر بے خوش ہوئے تھے۔

چاچانہرو نے بیس منٹ کے اپائٹمنٹ کے بجائے ہمارے ساتھ ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ وقت گزارا اور سب سے خوب باتیں کیں۔ ہم سے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی لال قلعہ پر 15اگست کا پروگرام دیکھا ہے؟ تو ہم سب بولے کہ نہیں تو پھر وہ بولے کہ کیا تم سب کل 15اگست کو لال قلعہ جانا چاہوگے۔ ہم سب مل کربولے جی ہاں ۔ چاچانہرو نے پھر اندرا جی سے کہا کہ تم ان سب کے لیے کل کے لیے پاسیز کا انتظام کرواﺅ۔ ہمیں یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ چاچانہرو نے ہمیں 15اگست کو لال قلعہ پر جانے کی اجازت دلوائی اور ہم پھر دوسرے روز وہاں پر گئے بھی اور چاچانہرو کو لا ل قلعہ پر جھنڈالہراتے ہوئے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔

چاچا نہرو نے ہم سب بچوں کو بے حد متاثر کیا او ر ہم سب کے سب ان کے دیوانے ہوگئے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ چاچا نہرو اس روز بے حد خوبصورت اور حسین لگ رہے تھے۔ وہ سفیدشیروانی، سفید چوڑی دار پائجامہ، سفید کشمیری ٹوپی ، کالے جوتے اور سب سے زیادہ ان کی شیروانی میں لگا ہوا لال گلاب کا پھول بیحد خوبصورت لگ رہا تھا۔چاچا نہرو ہمیشہ شیروانی میں لال گلاب کا پھول لگاتے تھے جو ان پر خوب جمتا تھا اور وہ کافی حسین اور پرکشش بھی لگتے تھے۔ سچ میں وہ مجھے اس دن بے حد چارمنگ لگ رہے تھے۔اس دن ہم کو کسی کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ چاچانہرو ہم سب کوچھوڑ کر اتنے جلدی چلے جائیں گے اور جب ہم سب کو ان کے انتقال کی خبر ملی تو ہم سب بچے پھر بال سبھا کلب میں اکٹھاہوئے اور چاچار نہروکے انتقال کا بے حد غم اور افسوس منایا اور بعض بچے رونے بھی لگے کہ ہمارے پیارے چاچا نہرو ہم سے اتنی جلدی کیوں جدا ہوگئے۔خیر خدا کی مرضی ہم سب بچے کئی روز تک چاچا نہرو کی باتیں کرتے رہے اور افسوس مناتے رہے کیونکہ وہ تو چیز ہی نایاب تھے اور سب بچوں کے ہردلعزیز بھی تھے۔ چاچا نہرو کا جنم الٰہ آباد میں 14نومبر 1889میں ہوا تھا۔ ان کے والد پنڈت موتی لال نہرو(1861سے 1931)ایک دولت مند بیرسٹراور سیاسی نیتا تھا۔ ان ک والدہ کا نام سوروپ رانی(1863-1954) تھا۔

چاچا نہرو نے کیمبرج انگلینڈ سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ چاچا نہرو نے مہاتما گاندھی سے مل کر ملک کو آزادی دلوانے میں بے حد جدوجہد کی تھی۔چاچا نہرو کی شادی کملا نہرو (17سال عمر) کے ساتھ (8فروری 1916) میں ہوئی تھی ۔شادی کے ایک سال کے اندر ہی کملا کی واحد اولاد اندرا پریہ درشنی پیدا ہوئیں۔چاچا نہرو 15اگست 1947سے 27مئی 1964تک ملک کے پہلے وزیر اعظم رہے۔ چاچا نہرو کا انتقال 27مئی 1964(74سال کی عمر میں دہلی میں غلط یوگا کی کسرت کرنے کی وجہ سے برین ہیمبرج کی وجہ سے ہوا تھا کیونکہ اس روز ان کا یوگا کا استاد کسرت کروانے ان کے گھر نہیں آیا تھااو ر چاچا نہرو خود ہی آدھے گھنٹے تک سر کے بل الٹے کھڑے رہے جس کی وجہ سے ان کے سر میں کافی خون جمع ہوگیا جو پھر واپس نیچے نلیوں میں جاسکا اور دماغ کی رگ بلڈ پریشر کی زیادتی کی وجہ سے پھٹ گئی اور انہیں فوراً میڈیکل ایڈ نہیں مل سکی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔) واضح کردوں کہ میں خود بھی ایک مہینہ کایوگا کا کیمپ علی گڑھ میں اٹینڈ کرچکا ہوں جہاں پر ہندوستان کے معروف یوگی اور صدر آل انڈیا یوگا ایسوسی ایشن رام اوتار شرما نے مجھے ٹریننگ دی تھی تو انہوں نے ہم کو اس روز یہ بتایا تھا کہ یوگا کبھی بھی اکیلے نہیں کرنا چاہئے کیونکہ غلط یوگا کرنے سے جان تک بھی جاسکتی ہے جیسے کہ چاچا نہرو سے غلط یوگا کرنے کی وجہ سے چلی گئی تھی۔ چاچا نہرو نے ہندوستان میں کھیل کی دلچسپی رکھنے کی وجہ سے جو کہ انہوں نے انگلینڈ میں ہیرو اسکول میں کافی دلچسپی دکھائی تھی اور کالج میں اکثر وبیشتر کھیل کھیلا کرتے تھے۔اس کی وجہ سے پہلا ایشین گیم دہلی میں 1952میں کروایا تھا جو کہ پھر دوبارہ ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے 1982میں نئی دہلی میں منعقد کروایا تھا۔ واضح رہے کہ نہرو فیملی پڑھائی اور سیاست کے علاوہ کھیل میں بھی دلچسپی رکھتے تھے جس کی وجہ سے ہندوستان میں نہرو اور اندرا گاندھی کے دور میں کئی عالمی مقابلے منعقد کروائے گئے اور ابھی حال میں سونیا گاندھی کی دلچسپی کی وجہ سے 3اکتوبرسے 14اکتوبر2010)تک شاندار کامن ویلتھ گیمز منعقد کیے گئے جس کی تمام دنیا میں بے حد تعریف ہوئی۔یہ سب نہرو خاندان کے کھیل میں دلچسپی رکھنے کا ہی نتیجہ ہے۔نہرو بچپن سے ہی کھیل کود میں دلچسپی رکھتے تھے اور خود بھی کرکٹ، ہاکی، فٹبال، ٹیبل ٹینس، گھوڑ سواری، تیراکی اور لان ٹینس خوب کھیلتے تھے۔ مگر بس ایک روز جلد بازی میں زیادہ دیر تک غلط یوگا کرنے کی وجہ سے چاچا نہرو کا آخری سانس نکل گیا اور وہ کھیلتے کودتے اور یوگا کرتے کرتے ہم سب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔آج 14نومبر کو چاچا نہرو کی وہ خوبصورت چہرہ سامنے آگیا جب وہ ہم سب سے بڑے پیار سے گلے ملے تھے اور ہم سب کو اپنی پیاری، نرالی اور بھرپور محبت سے خدا حافظ کہہ کر اپنے دولت کدہ آنند بھون دروازے تک چھوڑنے آئے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ ہمارے پیارے اور چارمنگ چاچا نہرو سے پہلی اور آخری ملاقات ہوگی۔ بھگوان کو مرحوم کو سورگ میں جگہ دے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(اقبال)
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
(بشیر بدر علیگ)
چاچانہرو زندہ باد۔ ہندوستان پائندہ باد
Ahmed Rais Siddiqui
About the Author: Ahmed Rais Siddiqui Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.