”فیکٹرز“ کی سیاست

وطن عزیز میں جو کچھ سیاست کے نام پر ہو رہا ہے وہ ریاضی کے اُصولوں کے مطابق ہے۔ جس طرح اعلیٰ ریاضی میں ”فیکٹرز“ کے ذریعے تجزیہ کرنے کا فن سِکھایا جاتا ہے بالکل اُسی طرح ہماری سیاست بھی اب ”فیکٹرز“ کے گڑھے میں گرگئی ہے۔ اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے میڈیا کو خاصے منظم انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب سیکورٹی کی صورت حال بہتر ہوتی ہے اور لوگ بُنیادی مسائل پر حکومت سے جواب طلب کرنے لگتے ہیں تب اچانک بہت کچھ ہونے لگتا ہے یعنی توجہ بھرپور طریقے سے ہٹائی جاتی ہے۔ میڈیا والے شر پسندوں کی سرگرمیوں کو کور کرنے میں جُت جاتے ہیں۔ یہی حال سیاست کا ہے۔ جب بھی کوئی پارٹی مضبوط پوزیشن میں محسوس ہوتی ہے، مقتدر قوتیں اُس کی قوت کا بت پاش پاش کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں۔

1980 کے عشرے کے وسط میں جنرل ضیاءالحق نے سندھ میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا۔ سندھ کے شہری علاقوں کے ہوش مند افراد بھی اِس عمل کو مستحسن قرار دینے سے گریز ہی کرتے آئے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کا فطری طور پر پروان چڑھنا خود اُس کے اور مُلک کے لیے سود مند ہوسکتا ہے، غیر فطری طریقے سے کامیابی کا حصول بے سود ہی نکلتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب مسلم لیگ کو توڑنے کے لیے اعلیٰ سطح پر کوششیں کی گئیں۔ اِن کوششوں کے نتیجے میں مسلم لیگ کے کئی off-shoots معرض وجود میں آئے جو آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔

پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو کمزور کرنے اور کمزور رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ق) بنائی گئی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو مزید کمزور کرنے کے لیے اب سیاسی مارکیٹ میں ”عمران فیکٹر“ کو خاصے شاندار انداز سے لانچ کیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی چھوڑ دی ہے اور اب وہ تحریک انصاف میں شمولیت کے اعلان سے بہت قریب ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ مسعود شریف اور چوہدری یعقوب بھی تحریک انصاف کی گڈی میں سوار ہوچکے ہیں۔ علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال بھی تحریک انصاف کو گلے لگانے میں پیچھے نہیں رہے۔ پنجاب کے سابق گورنر میاں محمد اظہر کی شمولیت کو بھی عمران خان نے اپنی پارٹی کے لیے نیک شگون قرار دیا ہے۔

جس پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی شان سے پروان چڑھایا تھا اور جس کی نگہداشت میں بے نظیر بھٹو نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی اُس پیپلز پارٹی کا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ
پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!

صدر آصف علی زرداری نے وہی طریقہ اپنایا جو اٹلی میں سلویو برلسکونی نے اپنایا یعنی حلیفوں کو ”کسی بھی قیمت“ پر اپنا بناکر رکھو۔ متحدہ سے لاکھ اختلافات سہی، بات کو بگڑنے نہیں دیا جاتا اور اگر بگڑ جائے تو کچھ ہی دیر میں دوبارہ بنانے پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ یہ منفرد حلیف پرستی کب اور کہاں جاکر رکے گی، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ حلیف پرستی کی وباءپورے سیاسی اور حکومتی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔ سندھ میں متحدہ کو خوش رکھنے اور اس کے آگے سر تسلیم خم رکھنے میں پیپلز پارٹی کی رہی سہی عزتِ سادات بھی گئی! فائدے میں صرف متحدہ رہی۔

مفاہمت کی سیاست نے پیپلز پارٹی کے جہاز کو مشکلات سے اَٹے پانیوں میں پہنچا دیا ہے۔ جب جہاز ڈول رہا ہو تو کون اُس میں رُکنا گوارا کرتا ہے؟ اُستاد قمر جلالوی مرحوم نے کہا تھا
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں

پیپلز پارٹی وہ کشتی ہے جس سے ہر بوجھ خود اُترنے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہا ہے۔ اقتدار کی کرسی کے لیے تو لوگ باری کا انتظار کرلیتے ہیں، کسی پارٹی کے ڈوبتے جہاز سے کودنے کے معاملے میں باری واری کا انتظار نہیں کیا جاتا! اِس معاملے میں تو ”لیڈیز فرسٹ“ کا اُصول بھی ساقِط کردیا جاتا ہے!

سندھ کے شہری علاقوں اور بالخصوص کراچی میں متحدہ کا سحر ختم یا کمزور کرنے کے لیے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو خوب استعمال کیا گیا۔ قرآن سر پر رکھ کر الزامات عائد کرنے کی دوڑ میں وہ اِس قدر آگے نکل گئے کہ واپسی مَحال ہوگئی۔ اُن کے بارے میں ابتداءہی سے یہ گمان لوگوں کے ذہنوں میں تھا کہ وہ استعمال کئے جارہے ہیں۔ ایک حالیہ میں انٹرویو میں ذوالفقار مرزا نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اب وہ کسی کے لیے استعمال نہیں ہوں گے! ذوالفقار مرزا ڈاکٹر ہیں مگر سوچے بغیر آگے بڑھنے کی دُھن میں اُنہوں نے اپنے اندر ایسے پیچیدہ امراض پیدا کرلیے ہیں کہ اب اُن کا علاج ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

ذوالفقار فیکٹر، عمران فیکٹر، شاہ محمود فیکٹر .... ایسا لگتا ہے سیاسی فیکٹرز کی فیکٹری لگی ہوئی ہے۔ وقفے وقفے سے تازہ فیکٹرز نِکلے چلے آ رہے ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ تصور تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ اِس وقت عمران خان مانیٹر ہیں اور سیاسی کلاس روم کے بچوں سے کہا جارہا ہے کہ مانیٹر کی چھتری تلے جمع ہو جائیں! دو بڑی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم تیار کیا جارہا ہے، تیسری قوت کو پیدا کیا جارہا ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ وفاق میں کوئی بھی پارٹی تنہا یا ایک دو جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ قصہ مختصر یہ کہ پارلیمنٹ کے نام پر چُوں چُوں کا مُربّہ بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔

لاہور میں عمران خان کے جلسے کو بھرپور انداز سے کامیاب کرایا گیا اور یہ کامیابی کچھ اِس نوعیت کی تھی کہ خود عمران بھی حیران رہ گئے۔ اُن کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اُن کے نام کا میلہ اِس شان سے سجے گا! مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والا جلسہ بُلندی میں مینار کے آخری سرے کو چھوتا دکھائی دیا۔ اب واضح ہوتا جارہا ہے کہ اُوپر سے اشارے کئے جارہے ہیں اور اِن اشاروں کی بنیاد پر سیاسی ہیوی ویٹ تحریک انصاف کے پرچم تلے جمع ہو رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا سیخ پا ہونا فطری امر ہے۔ اُس کے ووٹ بینک اور بارگیننگ پاور کو کمزور کرنے کے لیے ایک بار پھر بھونڈا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ بڑی مشکل سے مسلم لیگ (ق) کا ٹنٹا ختم ہوا تو اب تحریک انصاف کا رولا پا دیا گیا ہے! عام خیال یہ ہے کہ تحریک انصاف وسطی اور بالائی پنجاب کے شہری علاقوں میں مسلم لیگ (ن) کے لیے وہی کردار ادا کرے گی جو سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے متحدہ نے ادا کیا تھا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اب متحدہ کو ملائے بغیر حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں رہی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا بھی یہی حشر نشر کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حصے بخرے کرکے اُنہیں کنٹرول کرنا فیصلہ کُن حلقوں کے لیے زیادہ سہولت کی بات ہے۔

مسلم لیگ (ن) کل تک صرف پیپلز پارٹی سے نِپٹ رہی تھی۔ اب خیر سے تحریکِ انصاف کے خلاف بھی محاذ کھل گیا ہے۔ دوسری طرف صدر زرداری بظاہر خوش ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی کوئی دکھائی دیا جس پر چاند ماری کی جاسکے!

پنجاب میں اپنی حکومت بچانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے ہر حال میں کسی نہ کسی بہانے، جمہوریت کے نام پر وفاق میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ کیا کوئی ایسی بات ہے جس پر حیرت ہو؟

مرزا تفصیل بیگ بیگ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایسا حیرت انگیز بھی نہیں کہ ہم دانتوں تلے انگلیاں دابے بیٹھے رہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ سیاست میں لوگوں کو اعمال کی سزا اِسی طور ملا کرتی ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ اُس کا مظاہرہ کئے بغیر رہتا نہیں اور جب دوسروں کو موقع ملتا ہے تو وہ اُس کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تُل جاتے ہیں! یہ میوزیکل چیئر جیسا کھیل ہے جو ہم چھ عشروں سے دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔

سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں قوم کہاں کھڑی ہے؟ بے چاری قوم میں اب اتنا دَم خَم ہے کہاں کہ کھڑی رہ سکے۔ وہ تو کب کی ڈھیر ہوچکی ہے۔ سیاسی گِدھ چاروں طرف منڈلا رہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ نظریات کے نام پر جینے والی اقوام کا دَم کسی نہ کسی چیز میں اَٹکا ہی رہتا ہے۔ ہاں، یہ ظلم کی بات ہے کہ سیاسی گِدھ کبھی کِسی کے مرنے کا انتظار نہیں کرتے۔ وہ قوم کے ”زندہ مُردوں“ کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں!

حکومت سازی، نظم و نسق اور سیاست کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابل رشک نہیں۔ مرزا تفصیل بیگ کا شکوہ ہے کہ قوم مُردہ ہوچکی ہے۔ جب سب کچھ ہونے دیا جائے گا تو یہی ہوتا رہے گا۔ مضبوط حکومت کے قیام کی راہ میں کھڑی کی جانے والی دیواریں ہمارے دلوں میں بھی دیواریں کھڑی کر رہی ہیں۔ حالات کو ایسے مقام پر پہنچا دیا گیا ہے جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی راستہ استحکام کی منزل تک نہیں جاتا۔ یہ راستہ ہمیں خود نکالنا اور ہموار کرنا ہوگا۔
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483368 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More