امام غزالی ؒ ایک حکایت میں
تحریر کرتے ہیں کہ ایک زاہد کسی خلیفہ کے سامنے پیش ہوا خلیفہ نے کہا کہ
مجھے کوئی نصیحت کیجئے۔زاہد نے کہا کہ اے امیر المومنین میں نے چین کا سفر
کیا وہاں کا بادشاہ کسی بیماری کی وجہ سے بہرا ہو گیا تھا۔ میں نے اس بادشا
ہ کو روتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں اپنے بہرے ہونے پر بخدا نہیں روتا
بلکہ اس لیے روتا ہوں کہ مظلوم میرے دروازے پر فریادی بن کر آئے گااور میں
اس کی فریاد نہ سن سکوں گا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میری بینائی سالم ہے اس
بادشاہ نے یہ حکم دیا کہ جوبھی مظلوم ہووہ سرخ کپڑے پہن لے پھر وہ ہاتھی پر
سوار ہو کر باہر نکلتا اور جو شخص بھی سرخ کپڑے پہنے ہوتا اسے بلا کر اس کی
شکایت جانتا اوراس کی تکلیف رفع کرتا ۔۔۔۔
قارئین آج ایک سماجی اور معاشرتی برائی کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا
چاہتا ہوں ۔ انگریز جب متحدہ ہندوستان کا حاکم تھا تو اس وقت جہاں انگریزوں
نے مختلف نظام متعارف کروائے وہیں پر معاشرے میں جرم کو روکنے اور امن
وامان کو کنٹرول اور قائم رکھنے کے لیے ایک بہت زبردست نظام پولیس کو بھی
ترقی دی اس پولیس کے نظام میں جہاں بہادر ،دیانت دار ،زہین او راہل ترین
پڑھے لکھے لوگوں کو بھرتی کرکے اس محکمہ کو انقلابی بنیادوں پر استوار کیا
گیا وہیں پر انگریز نے اس محکمے کو جرم کی اطلاع اور مجرم کا کھرا ڈھونڈنے
کے لیے ”مخبر “نام کا ایک کردار بھی متعارف بھی کرایا یہ مخبر متعلقہ تھانے
کے علاقے کا باخبر ترین شخص ہواکرتاتھااور علاقے میں رہنے والے شرفاءاور
مجرموں سب کو جانتاتھا حتیٰ کہ اس علاقے میں اگر کوئی بیرونی شخصیت آکر
مقیم ہوتی تو مخبر اس کا آگا پیچھا بھی اپنے ریکارڈ میں محفوظ کرلیتاتھا اس
بہترین نظام کی بدولت ہم نے دیکھا کہ انتہائی کم عملے اور محدود وسائل کے
باوجود انگریز حکومت کے دور میں جو واردات بھی ہوتی چاہے وہ قتل جیسا
بڑاجرم ہوتا یا ڈاکوں او رچوریوں کی وارداتیں ہوتیں مجرموں کو
گرفتارکرلیاجاتا اور نظام انصاف حرکت میں آکر انہیں کیفرکردار تک پہنچا
دیتا ۔
قارئین یہ تو ایک غاصب ،ظالم اور استعمار پسند بیرونی غیرملکی حکومت کا وہ
ایک مثبت کارنامہ تھا جو ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا یہاں سمجھنے والی بات
یہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی جو بھی حکومت قائم ہے وہ اپنے شہریوں سے
جو ٹیکس وصول کرتی ہے وہ اس نام پر وصول کرتی ہے کہ اس محصول کے بدلے مملکت
اپنے تمام شہریوں کو امن وامان ،انصاف ،روزگار ،ترقی کے یکساں مواقع اور
دورجدید کی تمام سہولیات فراہم کرے گی پاکستان قائم ہونے کے بعد سے لے کر
اب تک 64سالوں میں محکمہ پولیس کی افرادی قوت اور وسائل میں بے پناہ اضافہ
دیکھنے میں آیاہے لیکن کارکردگی میں ترقی کایہ سفر معکوس انداز میں چل
رہاہے بالکل اسی طرح جس طرح ریلوے ،پی آئی اے ،سٹیل مل اور دیگر قومی ادارے
تنزلی کا سفر طے کرتے کرتے آج تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں محکمہ پولیس
بھی لگ بھگ اسی کھائی کے کنارے پر پہنچ چکاہے یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ
ایک غیر ملکی غاصب حکومت تو یہاں پر امن وامان ،انصاف اور قانون کی حکمرانی
قائم کرنے میں کامیاب رہی تھی لیکن یہاں کی مقامی حکومت جسے یوں کہنا چاہیے
کہ مسلمانوں کی حکومت ،مسلمانوں کی منتخب کردہ حکومت او رمسلمانوں کے لیے
قائم کی جانے والی حکومت امن وامان اور انصاف مہیا کرنے میں ناکا م رہی ہے
ایک جلیل القدر خلیفہ راشد ؓ کا قول ہے کہ ”کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے
لیکن ظلم کی حکومت یعنی جو عدل نہ کرے وہ قائم نہیں رہ سکتی “
قارئین بالکل ایساہی آزادکشمیر اورپاکستان میں دیکھنے میں آرہاہے یہاں ہم
چند مقامی واقعات صرف اشارتاً آپ کے سامنے پیش کریں گے کہ جن سے آپ اندازہ
لگاسکتے ہیں کہ جرم اور مجرم کتنی تیزی او رآسانی کے ساتھ اپنا کام کررہے
ہیں اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے ذمہ دار لوگ کتنے سکون سے آرام
فرمارہے ہیں میرپور آزادکشمیر پورے کشمیر کا معاشی دل ہے یہاں کے دس لاکھ
سے زائد لوگ برطانیہ امریکہ ،مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں محنت مزدوری کے
لیے آباد ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں خوشحالی بھی ہے اور یہاں تک مشہور ہے کہ
پورے پاکستان میں سب سے خوبصور ت مساجد اور سب سے مکان میرپور میں تعمیر
کیے گئے ہیں دولت کی فراوانی شہد کی مکھیوں کا وہ چھتہ ثابت ہورہی ہے کہ
گردونواح کے علاقوں کے تمام اٹھائی گیرے ،ٹھگ ،چور اور ڈاکو اس شہر کو سونے
کی چڑیا سمجھ کر یہاں آتے ہیں چوریوں ،ڈاکوں ،قتل وغارت گری سمیت دیگر
وارداتیں کرکے سکون وآرام سے یہاں سے فرارہوجاتے ہیں آج تک یہاں ہونے والی
وارداتوں میں کرنسی ایکسچینج کی دکانیں لوٹی گئی ہیں ،جیولرز کی دوکانوں پر
ڈاکے ڈالے گئے ہیں ،کوٹھیوں اور مکانات میں چوریاں اور ڈاکے ڈالے گئے ہیں،
جن کے ذریعے کروڑوں روپے ہتھیا لیے گئے جن کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔
قارئین نوبت اب یہاں تک آ پہنچی ہے کہ مساجد اور مدارس میں بھی چوری کی
واردارتیں ہونا شروع ہو گئی ہیں یعنی انسانوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے گھر بھی
قانون کی غفلت کی وجہ سے مجرمانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنتے جا رہے ہیں اس
بارے میں تفصیل ہم پھر کبھی پیش کریں گے کیونکہ آج کا کالم محکمہ پولیس اور
قانون کے رکھوالوں کے لیے ہلکی سی محبت بھری ”چٹکی“ہے۔امید ہے کہ وہ اسی سے
جاگ جائیں گے ۔ بقول غالب یہاں ہم یہی کہیں گے
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست وبازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
ترے جواہر ِ طرفِ کلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل وگہر کو دیکھتے ہیں
قارئین آزاد کشمیر ابھی تک جرم اور مجرم اور دونوں معاملات میں پاکستان کے
دیگر علاقوں کی نسبت کافی حد تک پرامن تھا لیکن کچھ عرصے سے اس حوالے سے
تشویشناک کارروائیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ہمیں امید ہے کہ انسپکٹر جنرل
پولیس اپنے پورے عملے کے ساتھ ملکر اس انتہائی اہم محکمے کو اس کے اصل
فرائض منصبی ادا کرنے کے حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائیں گے یاد رکھیے کہ
بھیڑوں کے رکھوالے سوتے نہیں ہیں بلکہ جاگتے رہتے ہیں۔ میرپور میںچوری اور
ڈاکے کی کاروائیوں کو روکنے کے لیے پولیس کو جاگنا ہو گا۔یہاں عوام میں
پایا جانے والا ایک تاثر بھی آپ کو بتا دیں خلقِ خدا یہ کہتی ہے کہ چوری
اور جرم کی وہ تمام وارداتیں جو اس علاقے میں کی جاتی ہیں جن میں روپیہ
پیسہ اور سونے کے زیورات اور غیر ملکی کرنسی لوٹی جاتی ہے وہ اندر کے ”مخبر
“اور باہر کے ”محافظ “کی مکمل مدد اور معاونت کے ساتھ ہوتی ہیں گویا انگریز
کے دور میں جرم کو روکنے اور مجرم کو پکڑنے کے لیے جس ”مخبر “کی مددلی جاتی
تھی اب اس کی ڈیوٹی تبدیل ہوگئی ہے اور وہ قانون کی بجائے مجرموں کا ساتھی
بن گیا ہے اللہ کرے کہ عوام میں پایا جانے والے یہ تاثر غلط ہو اور قانون
کے محافظ حقیقی معنوں میں عوام کی رکھوالی کافریضہ انجام دینے والے مجاہد
بن جائیں۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک عادی چور آٹھویں مرتبہ چوری کی واردات کے بعدجب عدالت میں پیش ہوا توجج
صاحب نے انتہائی غصے سے کہا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ بار بار جرم کرتے ہو
اور عدالت میں آتے ہو اور اب کی بار تم نے نئے کپڑے چوری کیے ہیں
چور نے معصوم سامنہ بناکرکہا
جناب والا آپ تو جانتے ہیں کہ مجھے اکثر اس معزز عدالت میں آنا پڑتاہے پھٹے
پرانے کپڑے پہن کر یہاں آتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی ۔۔۔
قارئین دیکھا جائے تو آج کل شاید پولیس مجرموں کی عزت نفس کا خیال کرتے
ہوئے یہ چاہتی ہے کہ وہ معزز عدالت میں نئے کپڑے پہن کر آیا کریں ۔۔۔ |