حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ
تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ:۔ “بخل و حرص سے بچو، کیونکہ اس بخل و حرص نے تم سے پہلے لوگوں
کو ہلاک کیا۔“ (مسلم)
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی رہنمائی
کے لئے ایک اہم ہدایت فرمائی ہے، کیونکہ بخل و حرص ہلاکت کا سبب ہے، پچھلی
قومیں بھی اس کی وجہ سے ہلاکت سے دوچار ہوئی ہیں اور یہ چیزیں زندگی کے لئے
آئندہ بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے:۔ “اور جو اپنے
نفس کی حرص اور بخل سے بچا لیا جائے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔“ (الحشر۔
9)
بخل اور تنگدلی کے سبب سے انسان میں مختلف قسم کی اخلاقی خرابیاں پیدا ہو
جاتی ہیں، پچھلی قوموں میں جب یہ مرض سرایت کر گیا تو وہ قومیں دنیا پرست
بن کر رہ گئیں، دنیا ہی کو انہوں نے اپنا قبلہ مقصود بنا لیا، پھر اس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ باہم ایک دوسرے کے حقوق کو بھی پامال کرنے لگے، ان کے
پیمانے دینے کے اور لینے کے اور ہوگئے، لیتے تو پورا پورا لیتے لیکن دینا
ہوتا تو کم تولتے، ہمدردی و غمخواری کے جذبات ان کے یہاں بے معنی ہو کر رہ
گئے، پھر یہ مرض اتنا بڑھا کہ ان کے لئے ہر نصیحت غیر موثر ثابت ہوئی،
انجام کار تباہی و بربادی اور ہلاکت سے انہیں کوئی نہ بچا سکا، ایسی قوموں
کا جو انجام مقدر ہے اسی سے ان کو دوچار ہونا پڑا۔
انسانی کردار کو اصلاً جو چیز مطلوب ہوا کرتی ہے وہ ہے وسعت قلب اور لطافت
احساس، اگر ہمارے اندر یہ چیز نہیں ہے تو حقیقت کی نگاہ میں ہم سے بڑھ کر
بے مایہ کوئی نہیں ہے، کسی شخص یا قوم کو جاننے کے لئے اصلاً جو چیز دیکھنے
کی ہوتی ہے وہ نہیں ہے کہ اس کے پاس کیا ساز و سامان اور کتنا مال ہے بلکہ
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ وہ شخص یا قوم خود کیا ہے ؟ اس پہلو سے ہمیں سب سے
پہلے خود اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئیے، انسان محض خاک و خون سے بنا ہوا محض
کوئی ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ وہ اس کے سوا کچھ اور ہے، بالعموم ہماری نگاہیں
اسی ظاہری ڈھانچہ پر ٹک کر رہ جاتی ہیں، اس لئے ہم اسی کو نفع و نقصان کا
اصل معیار سمجھنے کی غلطی کر جاتے ہیں، ہم انسانی روح کو ہمیشہ نظر انداز
کر جاتے ہیں جس کی تجلیات سے خود اس ظاہری وجود کا بھرم بھی قائم ہوتا ہے،
اس مادی دنیا میں روح کا پورا ادراک تو مشکل ہے مگر ناقابل فہم الفاظ میں
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان در حقیقت ایک اخلاقی وجود ہے، اس طرح اس کی
روح کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں فیصلہ کرنا کچھ دشوار نہیں رہتا، روح
کی صحت اور اس کے حسن کی علامت ذہن و قلب کی فراخی اور اعلٰی ظرفی ہے، یہ
چیز اگر آپ کو حاصل ہے تو آپ ایک صحت مند روح کے حامل ہیں، بصورت دیگر آپ
کی روح کے بیمار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا، پھر بیماری موت کا پیش
خیمہ ہوا کرتی ہے، اگر صحت کی طرف سے غفلت برتی جائے تو اس کا انجام ہلاکت
اور موت کے سوا کچھ دوسرا نہیں ہوتا۔
اسلامی تعلیمات میں حیرت انگیز حد تک اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ آدمی
دنیا میں تنگی، دشواری اور مصائب کو قبول کرلے لیکن اپنی اخلاقی و روحانی
موت کو قبول کرنے پر ہرگز آمادہ نہ ہو، روح کو ہلاکت سے بچانے کے لئے کسی
بھی قربانی کے لئے آدمی کو تیار رہنا چاہئیے اور اس کی حفاظت کے لئے ہر
تکلیف و مصیبت اسے گوارا ہونی چاہئیے۔
بخل در حقیقت روح انسانی کی موت ہے، بخل وہ زنداں ہے جس میں قید ہو کر
انسانی روح گھٹ کر دم توڑ دیتی ہے، روح غیر مرئی ہے، یہ اس کی وسعت اور
گہرائی کی علامت ہے، روح غیر مرئی ہونے کے باوجود مختلف طریقے میں خود کو
ظاہر کرتی ہے، ان طریقوں کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات اور علم و عمل
سے ہے، جذبات و احساسات اور عمل کے آئینہ میں روح کی جلوہ گری ممکن ہوتی
ہے، جو لوگ ہدایت سے محروم ہوتے ہیں، ان کے جذبات و احساسات اور ان کی
آرزوئیں نہایت پست قسم کی ہوتی ہیں ان کا علم بھٹکا ہوا اور ان کا عمل کسی
اعلٰی کردار کا مظہر نہیں ہوتا، پھر ان تینوں کے درمیان توازن اور کامل
یگانگت اور ہم آہنگی بھی ان کے یہاں نہیں پائی جاتی جس کے دم سے ان کی
شخصیت حقیقی جاذبیت اور کشش سے بالکل عاری ہوکر رہ جاتی ہے، اس کے برعکس جو
لوگ بخل و حرص میں مبتلا نہیں ہوتے وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کو جو
ذہنی و قلبی فراخی حاصل ہے، وہ سب سے قیمتی شے ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت
کے صحیح مفہوم کو سمجھتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو صحیح معنی میں حق کے
لذت شناس ہوتے ہیں، اللہ تعالٰی تمام مسلمانوں کو بخل و حرص جیسے قبیح مرض
سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |