پاکیزگی کی اہمیت

ابومالک، حارث بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ “پاکیزگی نصف ایمان ہے (یعنی اجر و ثواب میں آدھے ایمان کے برابر ہے) اور الحمدللہ کہنا میزان کو بھر دیتا ہے (یعنی یہ عمل میزان میں بہت وزنی ہے) اور سبحان اللہ و الحمدللہ کہنا، یہ آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھر دیتا ہے، اور نماز روشنی ہے (جس سے اس دنیا میں حق کی طرف رہنمائی ملتی ہے) اور صدقہ دلیل ہے (اس بات پر کہ اس کا ادا کرنے والا مومن ہے) صبر روشنی ہے، قرآن تیرے لئے حجت (دلیل) ہے (اگر اس پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر) تیرے خلاف دلیل ہے، ہر ایک صبح صبح اپنے کاموں میں نکلنے والا ہے اور وہ اپنے نفس کا سودا کرتا ہے یا اس کو (اللہ تعالٰی کی رحمت سے محروم کرکے) ہلاک کرنے والا ہے۔“ (مسلم شریف)

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی اصلاح کے لئے کئی باتوں کو بیان کیا ہے، سب سے پہلے پاکیزگی کا ذکر فرمایا، اور اسے نصف ایمان سے تعبیر فرمایا ہے، دراصل انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے قلب اور قالب، انسان کا ایمان اس وقت مکمل ہوتا ہے جب ان دونوں کو پاکی حاصل ہو، دل کی پاکی تو یہ ہے کہ انسان شرک، کفر و بدعات سے اپنے آپ کو بچائے اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت پر کامل ایمان رکھے، دراصل یہی انسان کے ایمان کی بنیاد ہے، اور انسان جب جسم کی پاکی بھی اختیار کر لے تو انسان کے ایمان کی تکمیل ہو جاتی ہے اس لئے حدیث شریف میں ظاہری پاکی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو وحی کے ابتدائی دور میں اس کی تلقین فرمائی:۔

“اپنے کپڑے (لباس) صاف ستھرا اور مطہر رکھا کرو اور ہر قسم کی غلاظت اور گندگی سے پرہیز کیا کرو۔“ (المدثر 5۔ 4)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مذہب ہمیں ہر طرح سے صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے اور ظاہری صفائی کا بھی اس کے ہاں اتنا ہی اہتمام ہے جتنا باطن کی صفائی کا۔

اس کے بعد اس حدیث میں ذکر الٰہی کی فضیلت اور اس کا بے انتہا اجر بتایا گیا ہے، پھر نماز کا ذکر کہ یہی انسان کو ہدایت اور روشنی بخشتی ہے، پھر صدقہ کہ یہ عمل ایک مومن کے صدق اور اخلاص کی دلیل ہے، پھر صبر لہ فضیلت کی یہ بندہ مومن کا آزمائشوں کے وقت ایک بڑا ہتھیار ہے جس سے اسے استقامت ملتی ہے، پھر قرآن کریم کا ذکر ہے کہ یہ انسان کے لئے نجات کا ذریعہ بھی ہے اور ہلاکت کا سبب بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے خود ارشاد فرمایا ہے:۔

“یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔“ (بنی اسرائیل، 9)

اس کے برعکس قرآن پر عمل نہ کرنے سے ہلاکت ہے، اور حدیث کے آخر میں فرمایا کہ انسان اپنے نفس کو بے کار نہ چھوڑے، بلکہ اسے نیک و صالح اعمال میں لگائے رکھے، ورنہ برے اعمال اس کی تباہی اور بربادی کا باعث بنیں گے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1310690 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.