حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ “میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا وہ یتیم خواہ اس کا ہو یا کسی
اور کا جنت میں اس طرح (قریب قریب) ہوں گے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ذریعہ اشارہ کیا اور
دونوں کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔“ (بخاری شریف)
کوئی بھی معاشرہ جس کے اندر ذرا سی بھی انسانیت زندہ ہو کمزور، لاچار اور
محاتج افراد کے لئے بے پناہ ہمدردی اور تعاون کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور
اسلامی معاشرہ جس کی بنیاد ہی خیر خواہی، شفقت اور ایثار پر رکھی گئی ہے،
حقیقیتاً ہر کمزور کے لئے “دارالامان: ہے اور پھر یتیم جیسا “بے بس اور
ناتواں“ فرد تو انسانیت میں سب سے زیادہ اہتمام، عنایت، شفقت اور ہمدردی کا
مستحق ہے۔
قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں
ہمیں واضح طور پر کمزور اور حاجت مند طبقوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید
فرمائی گئی ہے اور اس عمل کو کرنے پر اللہ تعالٰی کی طرف سے بڑے بڑے
انعامات کی خبردی گئی ہے، جس طرح یتیم کی پرورش، اس کی نگہداشت اور اس کے
ساتھ حسن معاملہ عظیم نیکی ہے، اسی طرح اس کے ساتھ ظلم زیادتی اور اس کے
مال پر ہاتھ صاف کرنا انتہائی گھٹیا حرکت اور آخرت کی شدید بازپرس کا موجب
ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے۔
“جو لوگ ناحق (ظلم) سے یتیموں کا مال جھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی
بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔“ (النساء ۔ 10)
یعنی جو لوگ یتیم کے مالوں میں خیانت کرتے ہیں تو وہ جان لیں کہ یہ بہت بڑا
گناہ ہے اور آخرت میں اس کی پکڑ بھی سخت ہے اور اس کا عذاب بھی انتہائی
دردناک، یعنی جو کوئی یتیم کا مال بلا استحقاق کھاتا ہے گویا وہ اپنے پیٹ
میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے اور آخرت میں اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یتیم کی
پرورش کرنے والے کے لئے جس خاص اجر کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ جنت میں
میرے اور یتیم کی پرورش کرنے والے کے درمیان انتہائی کم فاصلہ ہوگا اور اس
کو اس طرح آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سمجھایا کہ اپنی کلمہ والی
انگلی اور اس کے برابر کی بیچ والی انگلی اس طرح اٹھا کر کہ ان کے درمیان
تھوڑا سا فاصلہ رکھا اور بتلایا کہ جتنا تھوڑا فاصلہ اور فرق تم میری ان
انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہو بس اتنا ہی فاصلہ اور فرق جنت میں میرے اور اس
مرد مومن کے مقام میں ہوگا جو اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے اس دنیا میں کسی
یتیم کی کفالت اور پرورش کا بوجھ اٹھائے، یعنی مرتبہ نبوت جو سب سے اعلٰی
درجہ ہے اس کے اور یتیموں کی پرورش کرنے والے کے مرتبہ کے درمیان اتنا
قریبی فاصلہ ہوگا۔
ساتھ ہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے “وہ یتیم خواہ اس کا ہو یا
کسی اور کا“ کے ذریعہ یہ بھی سمجھا دیا کہ یہ فضیلت کسی بھی یتیم کی کفالت
و پرورش کرنے کی ہے وہ یتیم خواہ اس کا اپنا قرابتی ہو جیسے پوتا یا بھتیجا
وغیرہ یا پرایا ہو یعنی جس سے کوئی رشتہ داری وغیرہ کا کوئی خاص تعلق نہ
ہو۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو ان حقیقتوں پر یقین کامل نصیب فرمائے اور وہ سعادت
میسر فرمائے جس کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس
ارشاد مبارکہ میں ترغیب دی ہے۔ آمین |