حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالٰی
عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں رسول اللہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ :۔ “کیا میں تمہیں
دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کروں ؟“ ہم نے عرض کیا، ضرور
یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “شرک خفی دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اور وہ یہ ہے
کہ ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو اور نماز کو اس لئے لمبا کرے کہ کوئی آدمی
اسے دیکھ رہا ہے۔“ (ابن ماجہ)
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے،
‘عالم ظاہر‘ ہے اور ہمارے حواس اور ہماری سوچوں کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر
اور مظایر ہی تک محدود ہے، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہری چال چلن دیکھ
کر ہی اس کے متعلق اچھی اور بری رائے قائم کر سکتے ہیں، اور اسی کی بنیاد
پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں، ظاہری اعمال سے پرے ان کی نیتوں، دل کے
بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں، لیکن عالم آخرت
میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالٰی علام الغیوب ہے اور وہاں اس کا فیصلہ
نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہوگا، گویا احکام کے بارے میں جس طرح
یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں، اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا
جاتا ہے، اسی طرح آخرت کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا اور اللہ تعالٰی کا
فیصلہ نیتوں پر ہوگا اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا۔
اللہ تعالٰی کا فرمان مبارک ہے۔
“ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، یکسو
ہو کر، اور نماز پڑھیں، زکوٰۃ دیں اور یہی سچا دین ہے۔“ (البینہ۔ 5)
اس حدیث کا حاصل بھی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی عمل کے ساتھ نیت کا اور ظاہر کے
ساتھ باطن کا دیکھنے والا ہے، اس کے یہاں ہر عمل کی قدر و قیمت عمل کرنے
والے کی نیت کے حساب سے لگائی جائے گی۔
یعنی جو شخص نماز نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس لئے پڑھتا ہے کہ لوگ اس کی
دین داری اور خدا پرستی کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کا اعزاز و
اکرام کیا جائے، تو اس حدیث کی رو سے اس کی یہ خشوع و خضوع والی نماز اللہ
تعالٰی کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی بلکہ روز محشر یہ دکھاوے کی
عبادت اس کے لئے وبال بن جائے گی اور اسے جہنم کے قریب کرے گی۔
یعنی اگر کوئی عمل محض خواہش نفسانی کے لئے کیا جاتا ہے تو ثواب کی دولت سے
تو محروم رہے ہی گا بلکہ مستحق ملامت و عتاب بھی ہوگا، لٰہذا یہ معلوم ہوا
کہ عمل کا مدار یعنی اس پر ثواب ملنا صرف نیت کے اوپر ہے، جیسی نیت کرے گا
ویسا ہی روز آخرت اس کا اجر ملے گا، اللہ تعالٰی ہم سب کو ہر کام نیک نیت
سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |