اسلامی سال نو کاآغاز یکم محرم
الحرام سے ہوچکاہے،جب کہ شمسی یعنی رائج الوقت گریگورین کیلنڈر کے مطابق
سال نوکے آغازمیں ابھی چنددن باقی ہیں ۔آئیے!اس حوالے سے کچھ معلومات
کاتبادلہ کریں ۔عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی مگر وہ مدینہ منورہ کے
پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی(یہودی)تقویم کی طرپر اپنے تجارتی اور
ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کی بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔
رسول اکرمﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کیلئے
منسوخ فرماکر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا تھا جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے
اہم واقعے سے کیاگیا تھا ،لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی
۔مسلمانوں کا ہجری سال حضوراکرمﷺ کی ہجرت سے شروع ہوتاہے جو کہ ہر قسم کے
مفاسداور شرک و نجوم پرستی جیسے رذایل اور لغویات سے یکسرخالی ، خالص امن
وآشتی کا پیغام ہے اس کی ابتداخود حضوراکرم ﷺ کے حکم سے ہوئی اور حضرت
فاروق اعظم ؓ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ”اسلامی قمری ہجری“
تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیاتھا۔
اگر چہ بعض دوسری تقاویم سن ہجری سے پہلے کی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کی
باقاعدہ تدوین سن ہجری کے آغاز کے بہت بعد ہوئی ہے، مثلا موجودہ عیسوی
تقویم اپنی تازہ ترین صورت میں دراصل سولہویں صدی عیسوی سے وجود پذیرہوئی
ہے ابتدامیں یہ ردمی تقویم تھی ،جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیولین عیسوی
تقویم میں تبدیل ہوئی بالآخر گریگورین تقویم میں تبدیل ہوئی اسی طرح سن
بکری گوپہلے کا معلوم ہوتاہے مگر دراصل ہجری تقوی سے کوئی 220سال بعد اس کی
تدوین ہوئی۔ عبرانی تقویم اگرچہ بہت پرانی معلوم ہوتی ہے لیکن اس میںچھوٹی
چھوٹی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں یوں یہ تقویم بھی اپنی تازہ ترین صورت میں بعد
کی ہے گواس کا بنیادی ڈھانچہ چوتھی صدی عیسوی کا ہے غالبا باقی تقاویم کا
بھی حال کچھ یوں ہی ہے۔
شریعت محمدیہ ﷺمیں احکام شرعیہ مثال حج و غیرکا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔
روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی
عدت، زکواة کیلئے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں
۔عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے، تاہم
دنیوی مقاصد کیلئے شمسی تقاویم کا استعمال فرض کفایة ہونے کے علاوہ دینی
وملی حمیت کا تقاضابھی ہے اور باعث اجر و ثواب بھی ۔
قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے
کا آغاز نئے چاندسے ہوتاہے ۔ماہرین کے مشاہدات اورمحتاط اندازوں کے مطابق
رﺅیت ہلال (ننگی آنکھوں سے چاند نظرآنے)اور ولادت قمری کا درمیانی وقفہ کم
ازکم 20گھنٹے کاہوناچاہئے۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتاہے
اورقمری مہینہ کبھی 29دن کا اور کبھی30دن کاہوتاہے۔ یوں قمری سال
عموما354دن اور بعض سالوں میں 355دن کا ہوتاہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج
عیسوی تقویم میں آج کل دن کاآغاز رات بارہ بجے سے ہوتاہے اوراس میں یہ بھی
طے ہے کہ ہرسال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا،اوریہ شعر،جودراصل ایک
انگریزی شعر کاترجمہ ہے ،بچے بچے کویادہے:
تیس دن ستمبر کے،اپریل،جون،نومبرکے
باقی سارے اکتیس کے،سوائے فروری کے
جب کہ فروری کا مہینہ عام سالوں میں 28دن کا لیاجاتاہے اور لیپ(چارپرتقسیم
ہونے ولا ہر چوتھاسال )کے سالوں میں 29دن کا ہوتاہے۔ مہینوں کی یہ تعداد
خود ساختہ ہے کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں
مجموعی تعداد365اور لیپ کے سالوں میں 366دن ہوگی۔اس کے مقابل قمری تقویم
میں ابہام ہے،جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔
قمری تقویم کے ابہام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ حضرات انبیاءکرام ؑ اور بزرگان
دین کی ولادت و وفات کے ایام مبہم رہتے ہیں انسان طبعاً سہولت پسنداور عجلت
پسندواقع ہواہے زیادہ محنت کے بغیر مکمل ثمرات حاصل کرناچاہتاہے اس لئے
حضرات انبیاءکرام ؑ کی خودساختہ تواریخ متعین کرلی جاتی ہیں مثلا عیسائی
حضرات نے ”25“دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ولادت قرار دے رکھاہے اور اس
تاریخ کوولادت مسیح کی خوشی میں کرسمس مناتے ہیں حالانکہ خود غیر متعصب
عیسائیوں کو اعتراف ہے کہ ”25“دسمبرحضرت عیسیٰؑ کا یوم ولادت ہر گز نہیں
خودساختہ تہوارمنالینے سے انسان یہ سمجھنے لگتاہے کہ اس نے اپنے رہنما و
پیشواسے محبت کاحق اداکردیاہے یوں اس کی روز مرہ کی عملی زندگی کی اپنے
پیغمبر کی اصل تعلیمات سے موافقت و مطابقت بسا اوقات بتدریج کم ہوتے ہوتے
بالآخرنیست و نابود ہوجاتی ہے۔ قمری تقویم کے ابہام سے حضرات انبیاؑ کی
ولادت باسعادت اور وفات کے علاوہ ان کی زندگیوں کے بعض دیگر اہم واقعات کی
سوفیصد ”توقیت“مشکل ہوجاتی ہے۔ اگر کہیں ایسا ہو بھی جائے تو بھی دنیا بھر
کے تمام مقامات پر قمری تواریخ کا یکساں ہونا ضروری نہیں لہٰذا ابہام
پھربھی ایک حد تک باقی رہے گا۔قمری شمسی تقاویم میں تواریخ اور مہینے تو
قمری ہوتے ہیں لیکن ان مہینوں کوموسموں کے مطابق رکھنے کیلئے تقریباہر
تیسرے سال ان میں ایک ماہ کااضافہ کیاجاتاہے اور سال کے بارہ کی بجائے تیرہ
مہینے بنائے جاتے ہیں چونکہ قمری سال شمسی سال سے تقریباگیارہ دن
چھوٹاہوتاہے لہٰذا تین سالوں میں تقریباایک ماہ کا فرق پڑجاتاہے۔ قمری
تقویم کے ابہام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے
پیداہونے والی انتظاری کیفیت (سسپنس)نہایت مسرت افزاہوتی ہے اہل اسلام
مثلاعید الفطرکے ہلال کی امکانی رﺅیت و عدم رﺅیت سے پیدا ہونے والی انتظاری
کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں بچوں ، جوانوں ، بوڑھوں ،
مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی
ہیں اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سوفیصدیقین کے ساتھ متعین اور مقررہوتو
چنداں خوشی نہ ہوتی۔
قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم
احکام شرعیہ مثلاصیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میںتمام موسموں میں ممکن
ہوگی مثلاایک شخص اٹھارہ بیس سال کی عمر میں رمضان کے روزے رکھناشروع
کرتاہے اور پچاس ساٹھ برس کی عمر تک جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے
قابل رہتاہے تو وہ گرمااور سرما اور بہار و خزاں تمام موسموں میں روزے
رکھنے کی سعادت حاصل کرپائے گا۔ اگر اس طرح کے احکام کیلئے شمسی مہینے
متعین کئے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی بلکہ
شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصب کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور
ملکوں کے لوگ موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرمامیں ان احکام
کی تعمیل کیلئے ہمیشہ پابندہوکررہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے
میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے۔
قمری تقویم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس میں تاریخ کا تعین گو تقریبی اور
تخمینی ہی سہی نہایت آسان ہے کیونکہ سورج کی نسبت چاندکی حالتیں اس کے
بتدریج بڑھنے اور گھٹنے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ناخواندہ شخص بھی
چاند کی حالتوں سے قمری تاریخ کا اندازہ کرلیتاہے، جبکہ سورج کی حالت یکساں
رہتی ہے ۔چاند کو ننگی آنکھ سے دیکھنا آسان اور فرحت بخش ہے جبکہ سورج کو
ننگی آنکھ سے دیکھنامشکل اورضررساں ہے۔اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری
تقویم کی بعض دیگر خصوصیات یہ بیان کی ہیں:
1۔سن ہجری کی بنیاد خالص قمری تقویم پر ہے جب سے اس کا آغازہواہے اس میں آج
تک کوئی ترمیم نہیں ہوئی کیونکہ یہ شرعی اور دینی تقویم ہے اس میں ترمیم کا
کسی کو حق نہیں۔ دنیا کی مروجہ تقویم میں یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم
ہی کو حاصل ہے۔
2۔سن ہجری کا آغاز واقعہ ہجرت نبوی سے ہوایوں اس کی بنیاد روحانی ہے۔
3۔ہفتے کا آغاز جمعة المبارک کے دن سے ہوتاہے۔
4۔ہجری تقویم میں شرک ، نجوم پرستی یابت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں
اور دنوں کے ناموںکو کسی سیارے یا دیوی ، دیوتاسے کوئی نسبت نہیں ۔
5۔قمری تقویم چونکہ فطری اور نہایت سادہ ہے لہٰذا شرائع سابقہ میں بھی دینی
مقاصدکیلئے یہی مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف
کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔
یہ انتہائی افسوس ناک امرہے کہ آج کے مسلمان اوربالخصوص نئی پودکو،جومستقبل
کی معماروصورت گرہے،اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں
۔اگریادہیں توصرف چندمہینے ،جوزندواقعات وخرافات کی طرف منسوب ہیں ۔علمائے
کرام نے لکھاہے کہ اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین کیلندڑکااستعمال
درست ہے ،تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کاجاننااوران کی عظمت وفضیلت کاقائل
ہونابھی فرض کفایہ ہے۔ناس ہولارڈمیکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کاکہ جس نے
ہمیں اسلاف کی دوسری میراث وزریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری
تقویم بھی بھلادی۔ہمیں اس اندھیرنگری میں حاکم سے توقعات وابستہ کرکے
خودفریبی میں نہیں رہناچاہیے،بلکہ اپنے بچوں کواہتمام وخصوصیت سے اسلامی
سال کے مہینوں کے نام یادکرانے چاہیئیں ،تاکہ وہ تقلیداغیارکے غیرمحسوس
حصارسے نکل سکیں۔ |