کامل مہاجر

ہجرت کے لغوی معنی ہیں چھوڑنا۔ جو لوگ دینی یا دنیوی غرض سے اپنا شہر چھوڑ کر کسی اور شہر یا ملک میں جا کر آباد ہو جاتے ہیں، عرف عام میں ان کو مہاجر کہا جاتا ہے۔ اگر خالص کوئی دنیوی مقصد ہے مثلاً اگر کوئی شخص زمین، مکان، دوکان یا عورت وغیرہ کے سبب سے اپنا شہر یا ملک چھوڑ کر کسی اور شہر میں جا کر آباد ہو جائے تو یہ ہجرت خالص مقصد کے لئے ہوگی اور اس پر وہ کسی بھی اجر و ثواب کا مستحق نہ ہو گا۔ لیکن اگر کوئی بوقت ضرورت صرف اور صرف اللہ و رسول کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے اپنا وطن، کاروبار، زمین جائیداد، عزیز و اقارب چھوڑ دے اور کہیں اور جا کر آباد ہو جائے۔ تو یہ ہجرت اعلٰی درجہ کی ہجرت ہوگی اور یہ مہاجر، اس پر عنداللہ اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔ جیسا کہ بوقت ضرورت اللہ و رسول کے حکم پر صحابہ کرام مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ جا کر آباد ہو گئے۔ یہ بڑا ہی سخت امتحان تھا لیکن صحابہ کرام اس امتحان میں کامیان رہے۔ چونکہ اللہ تعالٰی کے نزدیک وہی عمل محبوب ہے۔ جو صرف اس کی خوشنودی کے لئے کیا گیا ہو۔ اس میں ریاکاری یا دنیوی مقصد کی بر آری کا کوئی دخل نہ ہو۔ اس لئے آقائے نامدار نے صحابہ کرام کو حیات آفرین خطاب فرمایا وہ آج بھی احادیث کی کتابوں میں جلی حرفوں میں مرقوم ہے۔ اور پوری امت مسلمہ کیلئے مشعل راہ ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے۔

“حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تمام اعمال کا ثواب نیتوں سے ہے اور آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ لٰہذا جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کے واسطے ہو تو اس کی ہجرت اسی کے لئے ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔“ (بخاری و مسلم)

خوش نصیب ہیں وہ فرزندان توحید جو بوقت ضرورت اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی کے لئے سراپا ایثار بن جاتے ہیں اور اپنی بھری پری دنیا کو چھوڑ کر ایک نئی دنیا کو آباد کرکے ازسر نو زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ یقیناً یہ ہجرت ایک اعلٰی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اور اللہ تعالٰی کے وہ بندے جو اس طرح کی ہجرت کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں ان پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے۔ لیکن یہ وہ ہجرت ہے جو بندگان خدا کو کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے۔ اس ہجرت کا آرزو مند کبھی کبھی زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی آرزو کی تکمیل نہیں کر پاتا۔ کیونکہ جن حالات میں یہ ہجرت مسلمانوں پر فرض ہوتی ہے وہ حالات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اے ہجرت کا آرزو مند انسان ! تجھے اپنی اس نامردای پر گریہ و زاری کرنے کی حاجت نہیں۔ فکر و تردد کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی ضرورت نہیں اس ہجرت سے بھی کامل ایک ہجرت ہے۔ جو تجھے ہر وقت نصیب ہو سکتی ہے بس تو ایک عہد کرے کہ تو کسی بدی کے پاس نہیں پھٹکے گا۔ تو ہر اس امر کو چھوڑ دے گا جس سے اللہ تعالٰی نے تجھ کو روکا ہے۔ یعنی نہ تو کسی کو گالی دے گا۔ نہ کسی کی غیبت کرے گا۔ نہ کسی کو قتل کرے گا۔ نہ جھوٹ بولے گا۔ نہ چوری کرے گا۔ نہ شراب پئے گا۔ نہ زنا کرے گا۔ نہ کسی کا حق مارے گا۔ اے انسان جب تو اپنے اس عہد پر کاربند ہو جائے گا تو سمجھ لے کہ اب تو کامل مہاجر ہو گیا۔ اب تیرا ہر لمحہ عبادت میں شمار ہوگا۔ اس ہجرت پر تجھ کو اللہ عزوجل اس سے سوا اجر و انعام عطا فرمائے گا۔ جو خالصۃً للہ اپنا وطن چھوڑے والے کو عطا کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں سرور کونین، فخر دارین جناب احمد مجتبٰی محمد مصطفٰے :Sallalla: کی مندرجہ ذیل حدیث پاک کو پڑھ اور بغور پڑھ۔ یہ حدیث پاک یقین کامل ہے کہ تیری سوچ اور فکر کو ایک نئی سمت عطا کرے گی۔ ایک ایسی سمت جو تجھ کو کامیابی و کامرانی کی منزل سے ہمکنار کرے گی۔

“حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمھاجر من ھجر مانھی اللہ عنہ ھذا لفظ البخاری۔ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ممنوع چیزوں کو چھوڑ دے۔“
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1359915 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.