ان بوڑھے والدین کے بارے میں سوچ
کر نیند اڑ جاتی ہے جن کے کڑیل جوان بیٹے لاپتا کر دیے گئے ہوں۔ اُن بہنوں پر
کیا گزرتی ہوگی جن کے بھائیوں کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ وہ خواتین کس حال
میں ہوں گی جن کو یہی نہیں معلوم کہ ان کا سہاگ اجڑ گیا یا وہ ابھی سہاگن ہیں
اور شوہر کبھی نہ کبھی پلٹ کر آجائے گا‘ کسی جن کی قید سے رہا ہو کر۔ اور وہ
بچے جو روز صبح یہ امید لے کر آنکھ کھولتے ہیں کہ آج تو شفیق باپ کا چہرہ ضرور
نظر آجائے گا۔ اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنی غم زدہ ماں سے کوئی سوال بھی
نہیں کرتے۔ بس چپ چاپ دہلیز پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں کہ شاید ایک مانوس اور محبت
بھرا چہرہ وقت کی دھول میں سے نمودار ہوکر انہیں گود میں اٹھالے۔ جن بچوں کے
باپ لاپتا کر دیے گئے ہیں وہ کم عمری ہی میں اتنے سیانے ہوگئے ہیں کہ اپنی ماﺅں
سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ابا کہاں ہیں‘ کب آئیں گے۔ انہیں پتا ہے کہ ان کی ماں
ان سے چھپاکر اپنی آستین سے آنسو کیوں پونچھتی رہتی ہے۔ اور یہی ان کے سوال کا
جواب ہوتا ہے۔ گمان تھا کہ فوجی آمریت ختم ہوگی تو لوگوں کو لاپتا کردینے یا
امریکا کے ہاتھ فروخت کردینے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔
ایجنسیوں کے ذریعے لوگوں کو اٹھوالیا جاتا ہے اور پھر پتا نہیں وہ کہاں چلے
جاتے ہیں۔ گھر والے ہر در پر دستک دیتے ہیں مگر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ کم از
کم یہی معلوم ہوجائے کہ ان کے پیارے کہاں ہیں تو یہ تسلی تو ہوجائے کہ وہ زندہ
ہیں۔ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو قانونی طریقہ تو یہ ہے کہ اس کی باقاعدہ
گرفتاری ظاہر کی جائے اور عدالت میں پیش کیا جائے۔ لیکن جمہوری حکومت میں بھی
قانون کی بالادستی نظر نہیں آرہی۔ کیا موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن
لیں گے؟ کیا مشیر داخلہ یہ بتائیں گے کہ کون سا قلزم ہے یہ جس میں اترجاتے ہیں
لوگ۔ یوں تو بہت سے لوگ اب تک لاپتا کیے جاچکے ہیں لیکن حافظ وحید اللہ خان کا
دکھ سب سے سوا ہے کہ ان کی رات کی سحر کسی طرح نہیں ہورہی۔ اس ضعیف العمری میں
ان پر جو گزر رہی ہے اسے صاحب ِاولاد ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا ایسے ظلم
کے ذمہ دار خود صاحب ِاولاد نہیں یا وہ کسی کی اولاد‘ کسی کے شوہر‘ کسی کے
بھائی نہیں؟ حبیب جالب مرحوم نے اجتماعی بات کی تھی کہ ”ہر بلاول ہے دیس کا
مقروض.... پاﺅں ننگے ہیں بے نظیروں کے“۔ مقروض بلاولوں کے لیے دو تین وقت کے
فاقے کاٹ لینا معمول کی بات ہے۔ ننگے پاﺅں پھرنے والی بے نظیروں کے تلوے اتنے
سخت ہوچکے ہیں کہ کانٹے شرمسار ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مسئلے ایسے اہم نہیں رہے۔
لیکن جب دیس کے بلاول اچانک غائب کردیے جائیں اور بے نظیریں تڑپتی رہ جائیں تو
معاملہ سنگین تر ہوجاتا ہے۔ وہ جو غائب کردیے گئے وہ بھی تو کسی کے بلاول یا
بلال تھے۔ پرویزمشرف تو جوکرگئے‘ سو کرگئے۔ اب تو سننے میں آیا ہے کہ اسلام
آباد میں جمہوری حکومت آگئی ہے‘ عوام کا راج ہے اور اب راج کرے گی خلقِ خدا کا
خواب پورا ہوا ہے۔ پھر خلقِ خدا کہاں غائب کی جارہی ہے؟ آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے
شوہر کی بازیافت کے لیے نکلی تھیں مگر اب ان کی فہرست میں بہت سی دوسری بے
نظیروں کے شوہر‘ بے زروں کے بلاول اور کئی بختاوروں کے خفتہ بخت شامل ہیں۔ ان
کا کہنا ہے کہ عوامی راج میں بھی اب تک 13 افراد غائب ہوچکے ہیں۔ شاید ان کے
پاس مکمل اعدادوشمار نہیں‘ 13تو کچھ بھی نہیں‘ اب تک 19افراد تو کراچی کے غائب
ہیں۔ غائب کر دیے جانے کی ایک واردات کراچی میں 14ستمبر کو ہوئی ہے۔ لیکن اس کے
بعد بھی ایک لڑکا سرفراز لاپتا کردیا گیا۔ اس کی خبر دی تو گھوٹکی کے کسی منہاس
کا خط آگیا کہ میرے بیٹے کی بھی خبر دیجیے۔ 14ستمبر کو اسامہ کو اٹھالیا گیا۔
اسامہ بن لادن کی تلاش میں تو امریکا اور اس کے تمام حواری لگے ہوئے ہیں مگر اس
تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ نوجوان اسامہ تو ضعیف حافظ عبدالوحید خان کا لخت ِجگر ہے
جو حرا پبلک اسکول سکھر کے پرنسپل ہیں اور اس پیرانہ سالی میں یکے بعد دیگرے
اپنے جوان بچوں کا غم سہہ رہے ہیں۔ ان کے بچوں نے وحید برادران کے نام سے شہرت
پائی۔
بڑے بیٹوں ارشد وحید اور اکمل وحید کو جون 2004ءمیں اٹھالیا گیا تھا۔ 15دن بعد
کورکمانڈر حملہ کیس میں ملوث کردیا گیا جہاں سے وہ عدالت کے ذریعے باعزت بری
ہوئے۔ مگر یہ پونے دو سال اس بوڑھے باپ اور اس کے خاندان پر کس قیامت کے گزرے
ہوں گے‘ اس کا اندازہ صاحب ِاولاد ہی کرسکتے ہیں۔ بڑا لڑکا ارشد وحید اپنے ہی
ملک کی زمین پر امریکی میزائل کا نشانہ بن کر شہید ہوا۔ اکمل وحید ملک چھوڑ گیا۔
لیکن اسامہ جب 14ستمبر کی شب اپنے والد کو سکھر ایکسپریس سے رخصت کرنے کے لیے
کراچی کینٹ اسٹیشن گیا تو اس کی واپسی اب تک نہیں ہوسکی۔ کراچی کے تمام تھانے
ایف آئی آر تک درج کرنے پر تیار نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ اسامہ کہاں ہے
اور کس کے پاس ہے۔ 78سالہ حافظ عبدالوحید کو خدشہ ہے کہ اسامہ کو کسی خطرناک
مقدمہ میں ملوث نہ کردیا جائے۔ یہ بوڑھا ماہر تعلیم‘ جس کے شاگرد متعدد اہم
عہدوں پر براجمان ہوں گے‘ ہر ایک سے سوال کررہا ہے کہ اتنا تو بتادو میرا بیٹا
کہاں ہے۔ مگر کوئی جواب نہیں ملتا۔ کیا یہ قانونی طریقہ ہے؟ کیا آئین تحفظ کی
ضمانت نہیں دیتا؟ اگر کسی پر کوئی شک ہے‘ کوئی الزام ہے تو ایف آئی آر درج کی
جائے‘ گرفتاری ظاہر کی جائے اور عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ گھر والوں کو اتنا
تو معلوم ہو کہ ان کا پیارا زندہ ہے اور فلاں جگہ ہے۔ تو کیا اس عوامی دور میں
بھی قانون کو بالادستی نصیب نہ ہوگی اور لوگ ایسے ہی اٹھائے جاتے رہیں گے؟
بوڑھا حافظ عبدالوحید اپیل کررہا ہے کہ اس خالصتاً انسانی معاملے پر اس کی مدد
کی جائے۔ لیکن صحافیوں کو بھی تو اٹھایا جاتا رہا ہے۔ ہم تو صرف اتنی ہی مدد
کرسکتے ہیں کہ ایک ضعیف باپ کی اپیل دوسروں کے کانوں تک پہنچا رہے ہیں۔ کیا پتا
آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی یا رحمن ملک کی نظروں سے گزر جائے‘ کیا پتا انہیں
ایک بوڑھے باپ پر رحم آجائے‘ کیا پتا انہیں یاد آجائے کہ وہ بھی کسی کے باپ ہیں۔
ورنہ آخری عدالت تو ہے ہی۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو ایکشن کی اپیل ہم
واپس لے رہے ہیں کیونکہ وہ خود اپنے مسئلے میں الجھ گئے ہیں۔ کسی کی اولاد کو
اٹھایا جاتا ہے‘ یہاں ان کی اولاد کا معاملہ اٹھا دیا گیا ہے۔ ان کے پاس فرصت
نہیں ہوگی۔ ویسے بھی جب سے وہ اس عہدہ جلیلہ پر سرفراز ہوئے ہیں لاپتا افراد کے
مقدمے کی سماعت دیگر مصروفیتوں کے باعث نہیں ہوسکی۔ لیکن کاش بوڑھے حافظ
وحیداللہ خان کا خط ہمارے منصفوں کی نظر سے بھی گزرتا۔ ”منصف ہو تو اب حشر اٹھا
کیوں نہیں دیتے؟“ |