پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ذرائع توانائی اسلام کی اقتصادی تعلیمات کی روشنی میں

چودہ اگست 1947ء کو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا پاکستان آج کن کن مسائل سے دو چار ہے، اس سے پاکستان میں بسنے والا ہر شخص باخبر ہے۔ معاشی مسائل پر بات کی جائے تو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہی۔ آئے روز اخبار اور ٹی وی میڈیا کے ذریعے بھوک ہڑتالوں اور خودکشی کے واقعات کے متعلق سننا روز کا معمول بنتا جا رہا ہی۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک کی معاشی قوت مکمل طور پر تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔

حکومت دعوؤں پر دعوے کر رہی ہے کہ غریب کی حالت بہتر ہو رہی ہی، غربت میں 10% کمی واقع ہوئی ہے اور پاکستان کے ہر شہری کی ’’اوسط آمدنی‘‘ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہی۔ دوسری طرف عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔جب غریب آدمی کے ایک ہاتھ میں تنخواہ اور دوسرے ہاتھ میں یوٹیلٹی بلز آتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ وہ گھر کا راشن پورا کرے یا بلوں کی ادائیگی کرے۔ مہنگائی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ایک وجہ پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ ہیں۔ پٹرول اور بجلی تو پہلے ہی لوگوں کی کمر توڑ چکے تھے اور اب گیس بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہے۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھاری ٹیکس شامل ہیں۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ تیل کا ریٹ جس پر ریفائنریاں تیل بیچ رہی ہیں وہ ریٹ امریکہ میں ریفائنریوں کے ریٹ کے مطابق رکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں خام تیل 14 سے 18 ڈالر فی بیرل کم قیمت پر درآمد کیا جاتا ہی۔ اور جو پٹرول اور ڈیزل بیچا جا رہا ہے اس میں سلفر کی مقدار زیادہ ہے جو گھٹیا معیار ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ تیل مارکیٹ کرنے والی کمپنیاں بھاری منافع کما رہی ہیں اور ان کا آپس میں قیمت اور معیار پر کوئی مقابلہ نہیں اور ساتھ ساتھ یہی کمپنیاں ریفائنریوں میں بھی حصہ دار ہیں مثلاََ شیل، کالٹیکس اور پی-ایس-او پاکستان ریفائنری کی مالک بھی ہیں۔ ٹوٹل کا پاک عرب ریفائنری میں حصہ ہی۔ پٹرول پمپوں کا بھی منافع پہلے سے مقرر شدہ ہے اور ان کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔ اس اجارہ داری کے بعد جو قیمت عوام ادا کرتی ہیں اس میں حکومت کا تقریبََا 45% سے بھی زائد ٹیکس شامل ہو جاتا ہی۔

واپڈا بجلی دوسری نجی کمپنیوں سے خریدتی ہے جن کی قیمتوں میں گیس، فرنس آئل اورو ڈیزل کی قیمت بھی شامل ہوتی ہی۔ اس میں ان کمپنیوں کا بھاری منافع شامل ہوتا ہے ۔ واپڈا جب یہ بجلی بیچتی ہے تو اس میں واپڈا کا اپنا مارجن، بجلی کی ترسیل میں نقصان اور حکومتی ٹیکس بھی شامل کر لئے جاتے ہیں۔جو بدستور عوام کی ہی جیب سے ادا ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں گیس نکالنے اور اور بیچنے والی کمپنیاں حکومتی ملکیت ہوتی تھیں۔ اس زمانے میں گیس بھی اتنی سستی ہوتی تھی کہ کوئی اسکی قیمت کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ آج گیس نکالنے والی بہت سی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر استعماری کفار کی ہیں۔ حکومت ہر چھ ماہ بعد گیس کی قیمت میں 10 سے 15 فیصد اضافہ کر رہی ہے۔

بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے دبائو میں کیا جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ وہ دو ہتھیار ہیں جن سے دشمنِ اسلام کھڑی کھڑی ریاستوں کو گرا دیتے ہیں۔ ان کا کام پہلے حکومتوں کو بھاری قرضے فراہم کرنا ہوتا ہے اور جب سود کی لعنت میں پوری قوم گرفتار ہو جاتی ہے تو یہ اپنی قسطوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اور پھر ظاہر ہے کہ سود میں برکت تو ہوتی نہیں لہذٰا قسط نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور جب قسط نکلنا مشکل ہوجاتا ہے تو یہ لوگ سب سے پہلا درس انرجی بچانے کا دیتے ہیں اور اس مقصد کے لئے لوڈ شیڈنگ کی تجویز دیتے ہیں۔ اس طرح ان کو اپنی شرائط منوانے کا موقع با آسانی مل جاتا ہے۔

2010ء میں ہماری بجلی کی ضرورت 24,474 میگاواٹ تھی اور 6577 میگاواٹ بجلی کا شارٹ فال تھا۔ ہمارے پاس بجلی کم تھی اور ہمارے نوجوان سڑکوں پر ٹائر جلانے اور حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ہاتھا پائی میں مصروف تھی۔ ہمارے ملک سے انڈسٹریاں اُکھاڑ کر دوسرے ملکوں میں لگائی جا رہی تھیں اس لئے کہ ہمارے ملک میں 12,14 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔

اللہ نے پاکستان کو حیرت انگیز وسائل عطاء کئے ہیں ۔ ہائڈرل پاور کا تخمینہ لگایا جائے تو پاکستان کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ اگر ہم اپنے دریائوں اور نہروں پر پاورپلانٹس لگائیں تو 45000 میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے جس سے 2 پاکستان چل سکتے ہیں۔ اور یہ دنیا کا سب سے سستا ترین بجلی پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ لیکن ہماری حکومت اس نظام سے صرف 6500 میگاواٹ پیدا کر رہی ہی۔ باقی توانائی ضائع ہو رہی ہی۔ کالا باغ، بھاشا پر کام ہوا تھا لیکن اب بیرونی دبائوکی وجہ سے ٹھپ پڑے ہیں کیونکہ ورلڈبنک اور آئی ایم ایف ہمیں ان پروجیکٹس پر کام نہیں کرنے دے رہے اورہمیں تیل سے بجلی پیدا کرنے کو کہا گیا۔ جب تیل کی قیمت 45 ڈالر فی بیرل تھی تو یورپ نے اس طریقہ سے بجلی پیدا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور جب تیل کی قیمت 151 ڈالر فی بیرل ہو گئی تو آئی ایم ایف کے مشورے پر ہم نے پوری دنیا سے تیل سے چلنے والے پچاس سال پرانے بجلی گھر اُٹھا کر اپنے ملک میں لگالئے۔

سولر انرجی سے 100000 میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے جس سے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار پاکستان چل سکتے ہیں اور اس کے بعد بھی توانائی بچ جائے گی۔ اس وقت ہمارے ٹوٹل انرجی استعمال کا 29% گیس ہے۔ گیس کے بہت بڑے بڑے ذخیرے بلوچستان، سندھ، پنجاب بلکہ کوہاٹ تک ہیں۔ صرف کوہاٹ کے ذخیرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 30 بلین کیوبک میٹر کا ذخیرہ ہی۔ یعنی پاکستانی قوم اسے صدیاں استعمال کرے تو بھی ختم نہ ہو۔

روزانہ پاکستان کی مٹی سے 40,000 بیرل تیل نکالا جا رہا ہی۔ سندھ کے ہر دوسرے ضلعے میں تیل نکل رہا ہی۔جن کے بارے میں چائنیز انجنئیرز کا کہنا ہے کہ ابھی ان ذخائر کے متعلق اندازہ لگاناممکن نہیں ہی۔ البتہ دو سال تک وہ اندازہ لگانے کے قابل ہو سکیں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ ساری دنیا کے لئے حیران کن حقائق سامنے آئیں گی۔ دنیا کا سب سے بڑا ہائڈرو کاربنز کا ذخیرہ تھر کی سر زمین میں ہے۔ جو 2000 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے برابر ہے جو پورے ایشاء کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 50,000 میگا واٹ بجلی 500 سال تک ان ذخیروں سے پیدا کی جا سکتی ہی۔ دنیا کا سب سے بڑا کول کا ریزرو پاکستان میں ہے لیکن پاکستان میں کول سے صرف 9 فیصد بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

ٹی سی سی کے مطابق ریکوڈک (چاغی) کے اندر 270 بلین ڈالر کے سونے کے ذخائر ہیں مگر ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ 1000 بلین ڈالر کے ذخائر ہیں۔ یہ اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں جتنے گھر تباہ ہوئے تھے وہ سارے گھرنئے سرے سے بن سکتے تھے۔

ہماری تنگدستی کی اصل وجہ ہمارے اوپر سرمایادرانہ سوچ، سرمایہ درانہ نظام، اور سرمایا درانہ کمپنیوں کا تسلط ہی۔ اس کا حل صرف اور صرف ’’اسلامی اقتصادی نظام ‘‘کے نفاذ سے ممکن ہے۔

اسلام میں ذرائع توانائی پر کوئی ٹیکس نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں پانی، چراگاہیں اور آگ" (ابودائود"

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ ’’ان کی قیمت لینا حرام ہے‘‘۔

یہاں آگ سے مراد توانائی ہے جس میں تیل، گیس اور بجلی اور دوسرے ہر قسم کے ایندھن مثلاََ کوئلہ وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسلام میں معدنیات کی کانیں اور تیل اور گیس کے کنویں اور دریا اور جنگل وغیرہ ملکیتِ عامہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ملکیتِ عامہ وہ چیز ہے جس کا کوئی فرد، کمپنی یا ریاست مالک نہیں ہو سکتی بلکہ یہ عوامی ملکیت ہوتی ہے اور ریاست لوگوں کے امور کی نگہبان ہونے کی حیثیت سے ان کو لوگوں تک بغیر کوئی منافع کمائے پہنچانے کا کام سرانجام دیتی ہی۔

اسی طرح جو صنعتیں ملکیتِ عامہ میں شامل اشیاء سے متعلق ہوں جیسے تیل صاف کرنے کے کارخانی، تو وہ صنعتیں بھی ملکیتِ عامہ ہوتی ہیں۔یعنی حکومت کسی کمپنی یا فرد کے ہاتھوں تیل کی ریفائنریوں یا سٹیل مل کو بیچ نہیں سکتی۔ تو اسلام کے حکم کے مطابق حکومت صرف ان چیزوں کو بغیر منافع لئے لوگوں تک پہنچانے کا کام سر انجام دیتی ہے اور اگر ان سے کوئی آمدن وصول ہو تو حکومت پر فرض ہے کہ اسکو صرف رفاہِ عامہ کے کاموں میں خرچ کرے۔

یہ صرف اسلامی اقتصادی نظام کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ عوام کو ملکیتِ عامہ پر یہ سارے ٹیکس ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس سے مہنگائی اور غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ نہیں کیا جس کی وجہ سے ایک طرف تو ہم گنہگار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ جس سے اللہ تعالی ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہے۔

" اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی۔"
(سورۃ طٰہٰ: آیت124)
Qamar Uz Zaman Mustafvi
About the Author: Qamar Uz Zaman Mustafvi Read More Articles by Qamar Uz Zaman Mustafvi: 6 Articles with 22628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.