کفار قریش میں کچھ لوگ صلح پسند بھی تھے وہ
چاہتے تھے کہ بات چیت کے ذریعہ صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ طے ہو جائے۔
چنانچہ قریش کے چند معزز رؤساحضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دعوت اسلام اور بت پرستی کے خلاف
تقریروں کی شکایت کی۔ حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ نے نہایت نرمی کے ساتھ ان
لوگوں کو سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا۔ لیکن حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
خدا کے فرمان ‘‘ فاصدع بما توءمر ‘‘ کی تعمیل کرتے ہوئے علی الاعلان شرک و
بت پرستی کی مذمت اور دعوت توحید کا وعظ فرماتے ہی رہے۔ اس لئے قریش کا غصہ
پھر بھڑک اٹھا۔ چنانچہ تمام سردارانہ قریش یعنی ابوسفیان،عتبہ و شیبہ، و
عاص بن ہشام و ابو جہل و ولید بن مغیرہ و عاص بن وائل وغیرہ وغیرہ سب ایک
ساتھ مل کرحضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہ کہا کہ آپ کا
بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے اس لئے یا تو آپ درمیان میں سے ہٹ
جائیں اور اپنے بھتیجا کو ہمارے سپرد کر دیں یا پھر آپ بھی کھل کر ان کے
ساتھ میدان میں نکل پڑیں تا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے ابو
طالب نے قریش کا تیور دیکھ کر سمجھ لیا کہ اب بہت ہی خطرناک اور نازک گھڑی
سر پر آن پڑی ہے ظاہر ہے کہ اب قریش برداشت نہیں کر سکتے اور میں اکیلا
تمام قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتاحضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ نے حضور صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو انتہائی مخلصانہ اور مشفقانہ لہجے میں سمجھایا کہ
میرے پیارے بھتیجے ! اپنے بوڑھے چچا کی سفید داڑھی پر رحم کرو اور بڑھاپے
میں مجھ پر اتنا بوجھ مت ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں اب تک تو قریش کا بچہ
بچہ میرا احترام کرتا تھا مگر آج قریش کے سرداروں کا لب و لہجہ، اور ان کا
تیور اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ اب وہ مجھ پر اور تم پر تلوار اٹھانے سے بھی
دریغ نہیں کریں گے۔ لٰہذا میری رائے یہ ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے دعوت
اسلام موقوف کر دو۔ اب تک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ظاہری معین
مددگار جو کچھ بھی تھے وہ صرف اکیلے حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ ہی تھے۔
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دیکھا کہ اب ان کے قدم بھی اکھڑ رہے ہیں
چچا کی گفتگو سن کر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھرائی ہوئی
مگر جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ چچا جان ! خدا کی قسم ! اگر
قریش میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر دے دیں تب بھی
میں اپنے اس فرض سے باز نہ آؤں گا۔ یا تو خدا اس کام کو پورا فرما دے گا یا
میں خود دین اسلام پر نثار ہو جاؤں گا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی
یہ جذباتی تقریر سن کرحضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کا دل پسیج گیا اور وہ اس
قدر متاثر ہوئے کہ ان کی ہاشمی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ بھتیجے کی محبت
میں گرم ہو کر کھولنے لگا اور انتہائی جوش میں آ کر کہہ دیا کہ جان عم !
جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں جب تک میں زندہ ہوں کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر
سکتا۔ ( سیرت ابن ہشام ج1 ص266 وغیرہ ) خاندان بنو امیہ اسلام دشمن گروہ کے
حامیوں اب بھی کہو کہ حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے کوئی اھسانات امت مسلمہ
پر نہیں- |