پاکستان اس وقت دنیا والوں کیلئے
ایک آسان ہدف ہے یہاں ان کی مرضی کے خلاف ہونے والا کوئی معمولی سا واقعہ
بھی اتنا اچھال دیا جاتا ہے جیسے آج دنیا کا سب سے اہم واقعہ یہی ہو۔ اس
رویے میں دشمنوں کا ہاتھ تو ہے ہی لیکن خود ہم بھی اس معاملے میں کسی سے
پیچھے نہیں۔ آج کل اگر بین الاقوامی میڈیا پاکستان کو اقلیتوں کیلئے خطرناک
ترین قرار دے رہا ہے تو ہمارا اپنا میڈیا بھی آزادیٔ اظہار کی اعلیٰ ترین
مثالیں قائم کرتے ہوئے ان سے آگے بڑھ کر ایسا کر رہا ہے۔ سیاسی طور پر بھی
ہمارا رویہ کچھ کم غیر ذمہ دارانہ نہیں ہے۔ حکومت کی مخالفت میں حکومت سے
باہر بیٹھی سیاسی جماعتیں بھی ان خیالات کو اس قدر اچھال دیتی ہیں جیسے کسی
دشمن ملک کی بات کر رہے ہوں۔
آج کل یہی اقلیتوں کے معاملے میں بھی کیا جارہا ہے جو کہ ہرگز نہیں ہونا
چاہیئے۔ پاکستان کے مخالفین کوئی ایسا موقع ضائع نہیں کر رہے جس پر اس ملک
کی تذلیل کر سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہی کسی سچے پاکستانی کو اس
پر کوئی شرمندگی اور ہچکچاہٹ ہے کہ پاکستان ایک نظر یاتی ملک ہے اور اس کا
بنیادی نظریہ اسلام ہے۔ ہم نے اسے اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا تھا اور
97فیصد مسلمان آبادی کے ساتھ یہ ہمارا حق بھی ہے کہ اس ملک میں اسلامی
قوانین کا نفاذ ہو۔چونکہ اسلام صرف عقائد ہی نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے
اس میں زندگی کے ہر معاملے کیلئے ہدایات موجود ہیں اور اجتہاد کا راستہ بھی
کھلا رکھا گیا ہے اور ویسے بھی یہ ہمارا داخلی معاملہ ہونے کی وجہ سے کسی
دوسرے کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیئے لیکن کبھی انسانی
حقوق کے نام پر اور کبھی اقلیتوں کے نام پر پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں نہ تو کوئی تعصب پایا
جاتا ہے نہ ہی ان پر کسی قسم کی پابندیا ں ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کا تنا
سب تقریباً 3فیصد ہے اور آئین کے آرٹیکل 27کی رو سے یہ کسی بھی قسم کی
ملازمت کے حقدار ہیں،کسی بھی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں
اوریہ کہنا کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی ہو رہی ہے بذات خود سراسر
زیادتی ہے۔
افواج پاکستان جو ملکی دفاع کی ذمہ دار ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے
حساس ترین ادارہ ہے اگر اس میں غیرمسلم افسران کسی بھی عہدے تک جا سکتے ہیں
تو یقینا کسی بھی دوسرے شعبہ زندگی میں بھی انہیں مواقع حاصل ہیں۔ پاک فوج
میں ایک نہیں بلکہ کئی غیر مسلم میجر جنرل کے عہدے تک پہنچے اسی طرح
بریگیڈیر اور دوسرے عہدوں پر افسران موجود ہیں۔ پاک فضائیہ میں سیسل چوہدری
کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ پاک فضائیہ میں شایدیہ تناسب پاک آرمی
سے بھی زیادہ ہے۔ یہی حال نیوی کا ہے ۔ اب اگر دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی
طرف آئیں تو رانا بھگوان داس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور قومی سطح
پر ان کی شخصیت کے قابل احترام ہونے میں بھی کوئی دورائے نہیں اور نہ ہی یہ
کوئی پہلا واقعہ تھا کہ وہ قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان بنے اس سے پہلے
جسٹس کا رنیلس آٹھ سال تک مسلسل اس عہدے پر فائز رہے۔
اس مضمون کا مقصد یہ نہیں کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کا ذکر
کیا جائے جو کلیدی عہدوں پر فائز رہے کیونکہ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ اس
کیلئے بے شمار صفحات درکار ہیں تاہم ان کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ یا
ددہانی کرانا تھی کہ پاکستان میں اقلیت اتنے ہی اہم اور اتنے ہی پاکستانی
ہیں جتنے کہ مسلمان اور نہ ہی کبھی اقلیتی عوام کی طرف سے پاکستان کیلئے
برے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، ہاں شوق ِلیڈری میں ہر پاکستانی کی طرح
وہاں سے بھی کوئی ایسی بات ہو تو یہ ہمارا قومی رویہ ہے مذہبی نہیں۔
6ستمبر 2011کو راولپنڈی میں ہندو اور سکھوں نے ہندو سکھ سوشل ویلفیئر کونسل
کے زیراہتمام جوش و خروش سے یوم دفاع مناتے ہوئے شہدا کو زبردست خراج تحسین
پیش کیا اس لیے کہ وہ ان کے بھی ہیرو تھے اور اس لیے بھی کہ وہ پاکستان میں
پر سکون اور پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے نام پر بڑے بڑے فنڈز حاصل کرنے والی تنظیمیں جن واقعات پر
شور مچاتی ہیں وہ اکثر ذاتی اور خاندانی دشمنیوں کاشاخسانہ ہوتے ہیں۔ جہاں
تک موجودہ حالات میں نشانہ بننے والے غیر مسلم شہریوں کا حال ہے تو کیا
پورا ملک ان حالات کا شکار نہیں ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے تو پورے ملک
کو دہشت گردوں کا نشانہ بنا رکھا ہے اور اس میں مسلم ، غیر مسلم کی کوئی
تخصیص نہیں۔ پاکستان مخالف بین الاقوامی پروپیگنڈہ مشینری کو بھی یہ بات
معلو م ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی سرگرمیوں کی پشت پناہی دراصل خود ان کے
مربی کرتے ہیں اور انہوں نے ہی پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا رکھا
ہوا ہے۔ اگر آج یہ لوگ ان کی مدد اور پشت پناہی چھوڑدیں ، انہیں اسلحے کی
فراہمی بند کر دیں تو ان کاوجود ختم ہو جائے گا اور یوں اس ملک میں سب کی
جان و مال محفوظ ہو جائیں گے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ یہ طاقتیں ایسا چاہتی
ہی نہیں خود ان ممالک میں مسلمانوں کے بارے میں جتنا تعصب پایا جاتا ہے وہ
ان کے ہر ہر اقدام سے عیاں ہے۔ امریکہ جو خود کو وسیع النظر سمجھتا ہے وہاں
خود کو بار بار عیسائی کہنے والے بارک حسین اوبامہ کا نام ہی باعث اعتراض
ہے ۔ نائن زیرو میں مسجد کا ایک کمرہ ان کی برداشت سے باہر ہے۔ وہاں قرآن
پاک کے ساتھ جو سلوک کیا گیاسب جانتے ہیں لیکن کسی ذمہ دار کو کوئی سزا نہ
دی گئی ۔ یہی حال یورپ کا ہے جہاں حجاب کو قابل سزا سمجھا جاتا ہے اور
بھارت جہاں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی ہے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو
رہا ہے وہ سب ہی جانتے ہیں لیکن چونکہ وہ برا سلوک مسلمانوں کے ساتھ ہوتا
ہے اس لیے قابل سزا نہیں۔ سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ان میں سب سے کم
شرح خواندگی ہی بتا دیتی ہے کہ بھارت کے مسلمان کس حال میں رہ رہے ہیں۔
صنعتوں میں، معیشت میں، کسی بھی جگہ آبادی اور نمائندگی کے تناسب میں
انتہائی زیادہ فرق ہے۔ چند ایک نام ہرگز کروڑوں مسلمانوں کی نمائندگی نہیں
کر سکتے جبکہ نہ ہی نیم مسلم فلمی ہیرو بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کے
نمائندہ ہیں ۔
پاکستانی اقلتیں پاکستان کے معزز شہری اور قابل فخر سرمایہ ہیں اور ان کی
حفاظت کسی بھی دوسرے پاکستانی کی طرح حکومت کا فرض ہے لیکن یہ سمجھنا کہ ان
کے ساتھ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ان کے خلاف سازش ہے قرین انصاف بالکل بھی
نہیں۔
اگر پاکستان میں اقلیتوں کے حالات کا درست تجزیہ کیا جائے بلکہ اگر بھارت،
امریکہ اور انسانی حقوق کے بڑے دعویدار ممالک کے ساتھ ان کا تقابلی جائزہ
لیا جائے تو پاکستان اقلیتوں کیلئے ان ممالک سے کہیں زیادہ محفوظ اور مامون
ہے ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ پاکستان دشمن پروپیگنڈے کا منہ توڑ اور
مؤثر جواب دیا جائے اور صرف حکومت مخالف خبروں اور خود کو بہادر اور بے لاگ
ثابت کرنے کیلئے یہ ملک دشمنی نہ کی جائے کہ صرف منفی خبریںدی جائیںبلکہ
کچھ وہ اقدامات بھی دکھائے اور بتائے جائیں جو اندر اور باہر ملک کے تاثر
کو بہتر کر سکیں۔ |