لمبی عمر کا خواب، کیا بڑھاپے پر قابو پایا جا سکتا ہے

ہمارے ہاں’دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو‘کی دعا عام ہے۔اس سے ملتی جلتی دعائیں دنیا کے اکثر معاشروں میں موجود ہیں۔ غالب نے تو پوتوں اور نواسوں سے کہیں آگے بڑھ کر ہزار سال جینے کی دعا دی تھی اور وہ بھی ایک ایسے سال کی دعا جس کے دن پچاس ہزارہوں۔

لیکن بات یہ ہے کہ انسان اگر ہزار برس بھی جیے تب بھی اسے یہ حسرت رہے گی کہ اگر وہ کچھ اورجی لیتا تو اچھا ہوتا کیونکہ درازیِ عمر کی خواہش ان خواہشوں میں شامل ہے جن کے بارے میں مرزا غالب نے ہی کہا تھا کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
 انسان نے اپنی عمر میں اضافے کی کوششیں اس دنیا میں آنے کے ساتھ ہی شروع کردی تھیں ۔زمانہ قبل ازتاریخ میں انسان نے مختلف بیماریوں سے بچنے کے لیے جڑی بوٹیوں اور ٹونے ٹوٹکوں کا استمال شروع کردیا تھا۔ کیونکہ زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیماریاں تھیں۔

قبل ازتاریخ عہد میں انسان کی اوسط عمر حیرت انگیز حد تک کم تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھر کے دور سے نکل کر دھات کے نسبتاً ترقی یافتہ عہد میں داخل ہونے تک اوسط انسانی عمر 18 اور 20 سال کے درمیان تھی۔ قدیم رومی اور یونانی ادوار میں عمر کا اوسط بڑھ کر 30 سال تک پہنچ گیا تھا۔ اہرامِ مصر سے ملنے والی کئی ممیوں کی عمروں کا اندازہ 30 اور35 سال کے درمیان لگایا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 19 ویں صدی کے اختتام اور 20 صدی کے آغاز تک اوسط انسانی عمر 40 سال تک تھی۔ موجودہ دور میں ماہرین نے دنیا کی اوسط عمر کا تخمینہ 67 سال لگایا ہے کیونکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں اوسط عمر میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اوسط عمر کا تعین کسی خاص علاقے میں کسی خاص عرصے میں پیدائش اور اموات کی تعداد سے کرتے ہیں۔پچھلی صدی کے وسط تک بچوں کی بیماریاں اوسط عمر میں کمی کی سب سے بڑی وجہ تھیں کیونکہ کثیر تعداد میں بچے پانچ برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی لقمہٴ اجل بن جاتے تھے۔اس کے علاوہ لگ بھگ ایک چوتھائی خواتین زچگی کے عمل سے گذرتے ہوئے موت کی منہ میں چلی جاتی تھیں۔

لیکن حالیہ عشروں میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے جادوئی اثر سے انسان کی اوسط عمر میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ صرف بھارت کی مثال اس صورت حال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ پچھلی صدی کے نصف میں بھارت کی اوسط عمر32 سال کے لگ بھگ تھی جو 2000ء میں بڑھ کر 64 سال ہوچکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صدی میں انسان کی اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں اس وقت مردوں کی اوسط عمر 74 سال جبکہ خواتین کی اوسط عمر 79 سال ہے۔ کئی یورپی ملکوں میں اوسط عمر اس سے کچھ زیادہ ہے۔ آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں اوسط عمر 81 سال بتائی جاتی ہے۔

پرانے قصے کہانیوں میں ایسے کئی انسانوں کاذکر ملتا ہے جنہوں نے صدیوں طویل عمریں پائیں۔ لیکن اس وقت جو مصدقہ ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق اب تک سب سے طویل انسانی عمر 122 سال ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سائنس کی ترقی اور رہنے کے ماحول کو بہتر بناکر انسان 100 سال سے زیادہ کی عمر پاسکتا ہے۔

عمر کی طوالت میں کئی عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن میں بیماریوں پر قابو پانا سرفہرست ہے۔ انسان کئی ایسی مہلک وباؤں پر قابو پاچکاہے جو آناً فاناً بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر اجاڑ دیتی تھیں ۔
 مگر آج اُسے ایڈز کے خطرے کا سامنا ہے۔جب تک اس موذی مرض کا کوئی شافی علاج سامنے نہیں آتا،وہ درازی ِعمر کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا رہے گا۔ اس کے علاوہ موٹاپے کو بھی اوسط عمر میں اضافے کی راہ میں حائل خطرے کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ترقی یافتہ اور متمول ملکوں میں اوسط عمر میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ صفائی ستھرائی کا بہتر نظام ہے۔ جن ممالک نے نکاسیِ آب کےبہتر نظام قائم کیے ہیں وہاں اوسط عمر میں اضافہ ہوا۔

لمبی عمر میں خوراک بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جن ممالک یا انسانی گروہوں نے ایسی اشیا کو اپنی غذا کا حصہ بنایا جو سادہ اورمتوازن تھیں، وہاں اوسط عمروں میں اضافہ ہوا۔اچھی خوراک سے مراد مرغن غذائیں یا بسیار خوری نہیں ہے۔ اس سے انسان موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے جسے کئی امراض کی ماں سمجھا جاتا ہے۔بلکہ اس سے مراد متوازن غذا ہے جس میں تمام ضروری اجزا مناسب مقدار میں موجود ہوں۔

نشہ آور اشیا،الکوحل کا زیادہ استعمال اور تمباکو نوشی عمر میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ روس میں الکوحل کے استعمال میں غیر معمولی اضافے سے 1999ء میں مردوں کی اوسط عمر گھٹ کر 60 سال کی سطح پر آگئی تھی۔

انسان جس ماحول میں زندگی گذارتا ہے وہ اس کی عمر کے تعین میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ گنجان آباد شہروں، آلودہ فضا،بڑی شاہراہوں اور صنعتی علاقوں کے قرب و جوار میں رہنے والوں کی اوسط عمریں ان لوگوں سے کم ہوتی ہیں جو خاموش اور پرسکون چھوٹی بستیوں اور سرسزوشاداب علاقوں میں رہتے ہیں۔

اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ سفید کالر یعنی اچھے عہدوں پر ملازمتیں کرنے والوں کی عمریں فیکٹریوں اور کانوں میں کام کرنے والے کارکنوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کام کرنے کی جگہ کا ماحول انسان کی عمر پر اثر انداز ہوتا ہے۔

یورپی ممالک میں کیے جانے والے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں متمول اور خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی عمریں غریب گروپوں سے زیادہ تھیں۔ اس کی وجہ صحت و صفائی کی سہولتیں، متوازن خوراک اور صحت کے بارے میں شعور و آگہی تھی۔فرانس میں بھی ایسی ہی صورت حال دیکھنے میں آئی۔یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں افریقہ کے غریب ملکوں میں اوسط عمر تقریباً نصف تھی۔ اس کی وجہ غربت، تعلیم کی کمی ، قحط اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتیں تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی عمریں نسبتاً طویل ہوتی ہیں جو ورزش اور جسمانی کام کاج کرتے ہیں۔ کیونکہ جسمانی اعضامتحرک رہنے سے ان کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔

مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسانی نسل کا بھی عمر کی طوالت سے گہرا تعلق ہے۔ ایک جیسے ماحول، ایک جیسے حالات میں رہنے اور ایک ہی جیسی خوراک استعمال کرنے والے مختلف نسلوں کی عمروں میں واضح فرق پایا گیا۔امریکہ میں سفیدفام مردوں کی اوسط عمر 74 سال جبکہ افریقی نژاد امریکیوں کی اوسط عمر 67 سال تھی۔
انسانی نسلوں میں عمر کی طوالت کے فرق کی وجہ ان کے جینیاتی مادے ڈی این اے کی ساخت ہے۔ ڈی این اےایک طرح سے وہ لوحِ حیات ہے جس پر یہ سب درج ہوتا ہے کہ اس میں امراض میں مبتلاہونے کا میلان ہے اور لگ بھگ وہ کتنے برس جیے گا، وغیرہ۔یہ بھی ڈی این اے کی ساخت کا نتیجہ ہے کہ عورتوں کی عمریں مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔

جسم میں ہر لمحہ ڈی این اے کی زیرِ نگرانی پرانے خلیے مرتے اوران کی جگہ نئے خلیے بنتے رہتے ہیں، جو پرانے خلیوں کی ہو بہو نقل ہوتے ہیں۔ تاہم عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈی این اے کی تقسیم کی صلاحیتیں کمزور ہوتی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں نئے بننے والے خلیے اتنے صحت مند نہیں ہوتے جتنے بچپن اور جوانی میں ہوا کرتے تھے۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جیسے فوٹو کاپی مشین شروع شروع میں تو بہت اچھی کاپیاں بناتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا ٹونر کمزور پڑتا جاتا ہے اور پرانی مشین کی کاپیاں اصل کے مقابلے میں خراب تر ہوتی جاتی ہیں۔

اس بات پر خاصی تحقیق کی جا رہی ہے کہ کسی طریقے سے ڈی این اے کی تقسیم کی صلاحیت کو لمبی عمر تک برقرار رکھا جا سکے تاکہ بڑھاپے میں بھی صحت مند اور توانا خلیے پیدا ہوں۔

یہ عمل بے حد پیچیدہ ہے اور اس میں کئی مشکلات موجود ہیں۔ تاہم جس روز انسان ڈی این اے کی تقسیم کے عمل میں سست روی روکنے اور اسے طویل عرصے تک ہو بہو نقل پیداکرنے کے قابل بنانے میں کامیاب ہو گئے تو سو سالہ انسان کی جسمانی صحت ویسی ہی ہو سکتی ہے جیسی 20 سال کی عمر میں ہوا کرتی تھی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: