ہجرت اور ہجری سنہ کی تقویم

 موجودہ دور میں ہجرت کا دائرہ بہت محدود ہوکر رہ گیاہے ، جبکہ تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو یہ لفظ جتنا چھوٹا ہے اتناہی وسیع مفہوم کاحامل ہے ۔اس کی جامعیت اور معنویت کاادراک ساڑھے چودہ سوسال قبل اس واقعہ سے ممکن ہے، جب نبی رحمت اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے وطن عزیز ”مکہ “ سے ” مدینہ“ کی جانب رخت سفر باندھااور اپنے وطن مالوف سے ہجرت کرتے ہوئے امن وشانتی کے شہر مکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:”اے مکہ! تو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،مگر مجھے اہل مکہ یہاں سے نکالنے پر مصر ہیں ، اس لئے تم سے جدائی اختیار کررہاہوں ۔“

یہ تھا اسلامی انقلاب کاٹرننگ پوائنٹ ،جو اپنے اندر بے شمار اسرارورموز سموئے ہوئے تاریخ کاایک عضو خاص اور اسلام کا جزولانفک قرارپایا۔

یہ بات تو اپنی جگہ مسلم ہے کہ اہل وطن کی ایذا رسانیوں اور دین اسلام کی ترویج واشاعت کی راہ میں حائل ہونے والے عناصر نے آپ کو اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں کو اپنا گھر بار ، آل اولاد سب کو خیر باد کہنے پر مجبور کیا۔ اور محمد نے اللہ تعالٰی کے اس حکم کو بلاچوںچرا قبول کرلیا۔یہ تو ہجرت ایک رخ تھا جو بڑا ہی تلخ تھا۔ لیکن جب اس کے دوسرے پہلو پر غو ر کریں تو حالت بالکل ہی بدلی نظر آئے گی ، اور بادل نخواستہ پکار اٹھیں گے کہ” درحقیقت ہجرت ہی میں اسلام کی نشوونما کاراز پنہا تھا۔“جس کی وضاحت قرآن مبین کی متعدد آیات سے ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی فرماتاہے:”جولوگ ایمان لائے ، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہادکیا، ان کا مقام اللہ کے نزدیک اونچاہے اور وہی لوگ کامیاب وبامراد ہیں“۔(سورة التوبہ:20)

اسی طرح اللہ نے ایسے مومن سے وسعت زمین، کشادگی رزق کاوعدہ اور منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے مرجانے پر اثبات اجر کامژدہ جاں فزاں بھی سنایاہے ۔(سورة النسائ:100)

یہی وہ فلسفے تھے ، جن کی معنویت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی رگ وپے میں سرایت کرگئی تھی ، اور وہ لوگ دین اسلام کی خیروسلامتی کے لئے حکم الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کردئے تھے، اور ہر قسم کی آلام و مصیبت کو بسر وچشم قبول کر لیاتھا۔ اب انہیں نہ کوئی فکر تھی،نہ اہل وعیال ،دوست واحباب سے جداہونے کا غم ، نہ ہی مرنے کاخوف تھااور نہ ہی مال وجائیداد کے چھن جانے کا رنج والم ۔ انہیں فکر تھی تو اسلام کی آبیاری کی ، اگر انہیں خوف تھا تو اللہ اور اس کے رسول کے ناراض ہوجانے کا ۔ یہ ایثارو قربانی ان کے لئے عزت ، قوت ، آزادی ، سر بلندی و خوشحالی کاپیش خیمہ ثابت ہوئی۔

تذکرہ ہجرت سن ہجری کی تاریخ کے بغیر ادھورا معلوم ہوتا ہے ۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب میں امام زہر ی اور امام شعبی کے اسناد کا حو الہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ” جب آدم علیہ السلام جنت سے اترے،اور ان کی اولاد پھلی پھولی تو ان کے بیٹوں نے ’ ہبوط آدم ‘ سے تاریخ شروع کی۔“

ظہور اسلام سے قبل دنیا کی متمدن قوموں میں متعدد سنین رائج تھے ،اور زیادہ مشہور یہودی ،رومی اور ایرانی سنین تھے، بعد میں یہ اہمیت خود عہد اسلام کے واقعات نے لے لی ۔ مثلاکبھی ”اذن “ کازور رہا تو کبھی ” سنہ برات“ کااور عہد نبوی کا آخری سنہ ” سنة الوداع “ بھی خوب مستعمل رہا۔البتہ بعض روایات سے اس طرح کے اور بھی متعدد سنین کاپتہ چلتاہے۔ جیسے :سنة التمحیص ، سنة التر فیة،سنة الزلزال، سنة الاشناس وغیرہ۔بیرونی نے ”آثار الباقیة“میں اس طرح کے دس سنوں کاذکر کیاہے۔(الہلال:140مولانا آزاد)

عالمی تاریخ سنین کو معلوم کرنے کے بعد یہ پہلو اور بھی زیادہ دلچسپ ہوجاتاہے کہ آخری اسلامی سنہ کی تقویم کیوں کر اور کیسے عمل میں آئی ؟یوں تو اس بارے میں بہت ساری روایات منقول ہیں ،تاہم سب سے مشہورروایت ”میمون بن مہران“کی ہے۔ جس کا اختصار یہ ہے کہ ” ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک کاغذ پیش کیاگیا جس میں شعبان کامہینہ درج تھا، عمر رضی اللہ نے پوچھا اس سے مراد کونسا شعبان ؟اس بر س کا یا آئندہ برس کا؟پھر آپ نے حساب وکتاب کو منضبط کرنے کے لئے سر برآوردہ اصحاب سے مشورہ لیا ، ایران کاسابق تاجور ہرمزان اتفاق سے اس وقت میں مدینہ میں ہی تھا ، اسے بلایاگیا، اور اس سے بھی مشورہ لیا گیا۔ چنانچہ دن اور ماہ کی تاریخ متعین کرنے میں ایرانی سنہ کی تقلید کی گئی ۔ البتہ واقعہ ہجرت کو سنہ قرار دیاگیا۔ “ابوہلال عسکری نے ”الاوائل“میں اور مقریزی نے ”تاریخ“میں جس بات کا اضافہ کیاہے وہ یہ کہ واقعہ ہجرت سے سنہ شروع کرنے کی رائے علی رضی اللہ عنہ نے دے دی تھی۔اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذا ت تھی ،جن کے اصرار پر محرم الحرام کو سال کاپہلا مہینہ مان لیاگیا۔

یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ کاروان ہجرت ، 27صفر المظفر کو مکہ مکرمہ سے جبل ثور کی طرف چلا اور یکم ربیع الاول کی شب غارثور سے چل کر قبا پہنچا ،پھر12ربیع الاول جمعہ کے دن مدینہ منورہ میں داخل ہوا (حسب تحقیق فتح الباری 7/278،نیز رحمة اللعالمین 2/391)بات جب ایسی تھی کہ ہجرت کامبارک عمل ربیع الاول میں پیش آیا پھر جمیع اصحاب نے ربیع الاول کی بجائے ماہ محرم کو سال کاپہلا مہینہ کیوں قرار دیا؟اس کا پہلا سبب تو ہو سکتا ہے کہ محرم الحرام کاشمار حرمت والے مہینوں میں ہوتاہے۔علاوہ ازیں اور بھی بہت سارے واقعات اس مہینہ سے وابستہ ہیں ۔دوسر ا یہ کہ زمانہ جاہلیت سے ہی عرب قوم میں محرم الحرام کی ایک الگ پہچان تھی ۔ واللہ اعلم با لصواب!

اس مختصر جائزہ کے بعد جب مذکورہ تحقیق کو” جواہرالسلوک“ کے مصنف کی تاریخ ملوک والے قول سے موازنہ کرکے دیکھتے ہیں تو ایک نئی بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ سنہ ہجری کا حکم آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب علی رضی اللہ عنہ کو نجران کے پاس خط لکھتے وقت کہاتھا،لکھو ! تو انہوں نے پانچویں ہجری کاسنہ لکھا۔ مصنف مذکور نے طبری سے مزید یہ نقل کیاہے کہ ”یہ بات مدینہ میں پیش آئی تھی“۔(اخبار العالم الاسلامی بحوالہ فلسفہ ہجرت:104)

مجموعی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سنہ ہجری کی تقویم کے اصل مؤرخ محمد تھے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول نے صرف آ پ کی پیر وی کی تھی۔

خلاصہ یہ کہ ہجری سنہ کی تقویم اصحاب رسول کا ایک مثبت اور مستحسن قدم تھا، گرچہ اس کے مو رخ کے بارے میں اختلاف ہے۔ رہی بات ہجرت رسول کی تو اسلام کے اقدار کی بحالی اسی وقت ممکن ہے ، جب ہمارے اذہان و قلوب اس قسم کی ایثار وقربانی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں، خواہ اس کے لئے اپنے خویش واقارب اور ساتھ ہی وطن عزیز کوبھی خیر باد کیوں نہ کہ دینا پڑے ، جس کا عملی نمونہ آپ اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں نے پیش کیا ۔علامہ اقبال کا یہ شعر بھی انہیں احساسات کی ترجمانی کرتاہے:
ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت کو گواہی
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58043 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More