مطبع اہل سنت و جماعت بریلی تاریخی پس منظر اور اشاعتی خدمات

گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ جماعتی تاریخ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،لیکن ابھی تاریخ کے بہت سے اہم گوشے ایسے ہیں جن کی طرف ارباب تحقیق اور اصحاب قلم نے توجہ نہیں فرمائی ہے، تاریخ کی انہیں فراموش شدہ اہم کڑیوں میں مطبع اہل سنت و جماعت بریلی اور اس کی ذریں خدمات کا شمار بھی کیا جا سکتا ہے- یہ مطبع محلہ سوداگران بریلی میں قائم تھا اور اس نے تقریباً چوتھائی صدی تک اشاعت دین و سنّیت کی گراں قدر خدمت انجام دی- علما اہل سنت اور بالخصوص اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی تصانیف کی طباعت و اشاعت میں اس مطبع نے اہم رول ادا کیا ہے-

ہماری محدود معلومات کی حد تک مطبع اہل سنت و جماعت بریلی پر کوئی مستقل تحقیقی کام اب تک سامنے نہیں آ سکا ہے، بعض مضامین اور مقالوں میں کہیں اس کا تذکرہ آ بھی گیا تو مواد اور معلومات کی قلت کے سبب چند سطور سے تجاوز نہ کر سکا-

زیر نظر مضمون میں ہم اس مطبع کے قیام کے تاریخی پس منظر اور اس کی اشاعتی خدمات پر ایک نظر ڈالیں گے-

مطبع کے قیام کا تاریخی پس منظر - مطبع اہل سنت و جماعت بریلی کا دستور العمل (مطبوعہ ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۶ئ) ہمارے پیش نظر ہے- اس کی تمہید میں لکھا ہے :
’’آئے دن نئے نرالے فتنے فساد اٹھتے نکلتے طرح طرح کے رنگ روپ بدلتے، بے چارے ناواقفوں کو لبھاتے چھلتے ہیں، مخالفین کے متعدد گروہ اپنی کانفرنسیں، کمیٹیاں روز بروز قائم کرتے بڑھاتے جاتے ہیں اور بڑے اہتماموں سے مذاہب باطلہ کی کتابیں چھاپ چھاپ کر شائع کرتے کراتے ہیں، علماے اہل سنت میں اول تو اس طرف توجہ فرمانے والے حضرات بہت کم اور جو بندگان خدا جس طرح ممکن ہو اپنا گرامی وقت صرف کرکے کچھ تحریر فرمائیں اس کی طبع و اشاعت کے سامان نا فراہم، ان کے رسائل بستوں ہی میں رکھے رہ جاتے ہیں، دو ایک نے اپنے ذاتی مصارف یا بدقت چندہ سے کچھ چھپوایا بھی تو اسباب اشاعت کم پاتے ہیں، یہ بڑا سبب مخالفین کے حملوں، جرأتوں، جرگوں، جمگھٹوں اور اہل مذہب حق کی اپنی مذہبی قوتوں، طاقتوں سے بے خبری، غفلتوں کا ہے، نظر برآں کچھ مبارک نفوس قدسیہ کے قلوب زکیہ میں خیال آیا، نہیں بلکہ دین حق کے مالکِ حق حضرت حق عز جلالہ نے الہام فرمایا کہ ایک مجلس خاص علماے اہل سنت کی مرتب ہو کر اپنی نگرانی سے مطبع اہل سنت و جماعت جاری فرمائے کہ بفضلہ تعالیٰ تمام علمائے کرام کو حمایت دین کی طرف توجہ خاص دے کر اشاعت حق و حمایت سنت و دفع فتنہ و ازالۂ بدعت عمل میں لائے‘‘-(۱)

مطبع اہل سنت کے قیام کا تاریخی پس منظر سمجھنے کے لیے ہمیں ان حالات پر ایک سرسری نظر ڈالنا ہوگی جو اس کے قیام کا محرک بنے-

۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء میں مدرسہ فیض عام کانپور کا سالانہ جلسۂ دستار بندی بڑے عظیم الشان پیمانے پر منعقد کیا گیا، اسی جلسہ میں مولانا محمد علی مونگیری نے ندوۃ االعلمالعلما کے قیام کا خاکہ پیش کیا- ندوۃ العلما کے قیام کے دو بنیادی مقصد بتائے گئے تھے ایک اتحاد بین المسلمین اور دوسرا اصلاح نصاب- ان دونوں مثبت اور تعمیری مقاصد کی وجہ سے اکثر علماے اہل سنت نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور انھیں مقاصد کے تحت ندوۃ الالعلما کے قیام کی سنجیدہ کوششیں ہونے لگیں- اس وقت تک اکثر اکابر علمائے اہل سنت اس تحریک میں شامل تھے- ندوۃ الالعلما کا دوسرا اجلاس لکھنؤ میں منعقدہوا، جب ان اجلاسوں کی رودادیں شائع ہو کر آئیں تو علمائے اہل سنت کو تشویش لاحق ہوئی کیوں کہ ان میں بعض چیزیں ایسی تھیں جو شرعی نقطۂ نظر سے قابل قبول نہیں تھیں- دینی خیر خواہی کے پیش نظر علمائے اہل سنت نے ندوہ میں در آنے والے ان مفاسد کی اصلاح کی کوششیں شروع کیں، ابتدا میں یہ کوششیں ذاتی ملاقاتوں اور افہام و تفہیم پر مبنی خط و کتابت تک محدود رہیں، لیکن جب حالات بہتر ہونے کی بجائے دن بدن بگڑتے گئے تو اصلاح ندوہ کی ان کوششوں نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی-

شوال ۱۳۱۳ھ میں بریلی میں ندوۃ الالعلما کے اجلاس کا اعلان کیا گیا اور زور و شور سے اس کی تیاریاں شروع کر دی گئیں- ادھر علمائے اہل سنت نے بھی اصلاح احوال کی کوششیں تیز کردیں- اس ضمن میں علماے اہل سنت کی ایک بڑی تعداد بریلی میں جمع ہو گئی- ندوہ کے تین روزہ اجلاس کے دوران گفت و شنید اور افہام و تفہیم، ذاتی ملاقاتوں اور مراسلت کے ذریعہ کی جاتی رہی مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا اور آخر کار ندوہ کا جلسہ ختم ہو گیا-

مجلس علماے اہل سنت کا قیام - انھیں حالات میں بعض مخلص علما کو یہ خیال ہوا کہ اہل سنت کی ایک مجلس تشکیل دی جائے جو نظم و ضبط اور باقاعدگی کے ساتھ خلوص و للّٰہیت کی بنیادوں پر تحریر و تقریر کے ذریعے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دے، بریلی میں ندوہ کے اجلاس کے فوراً بعد شوال ۱۳۱۳ھ میں علماے اہل سنت کی ایک میٹنگ رضا مسجد محلہ سوداگران بریلی میں منعقد کی گئی اور وہیں ’’مجلس علماے اہل سنت‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی تشکیل عمل میں آئی- اس مجلس کا صدر باتفاق رائے تلمیذ تاج الفحول حافظ بخاری سید شاہ عبدالصمد چشتی سہسوانی (متوفی ۱۳۲۳ھ) کو نامزد کیا گیا-

اس مجلس کے لیے ۱۶دفعات پر مشتمل ایک دستور العمل ترتیب دیا گیا، اس دستور کی ابتدائی پانچ دفعات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) یہ مجلس مبارک حمایت دین متین و حفاظت مذہب اہل سنت و ترویج مسائل نافعہ و فضائل اخلاقیہ و نصائح و مصالح دینیہ و دنیویہ کے لیے آخر ماہ شوال ۱۳۱۳ھ سے منعقد ہوئی-
(۲) یہ مجلس وقتاً فوقتاً تجویز کر کے شائع کرتی رہے گی کہ علماے اہل سنت کو اس وقت کیا کرنا چاہیے اور کس قسم کی کتب و رسائل تصنیف فرمانا چاہئیں، جن کی اشاعت کی ضرورت ہے-
(۳) اس مجلس کا اہم کام ایک مطبع اہل سنت جاری کرنا ہے جس میں کتب مفیدہ و اخبار حسبِ تجویز و منظوری مجلس طبع ہو کر قیمتاً اور بلا قیمت نفع مسلمین کے لیے شائع ہوں-
(۴) صدر مجلس حضرت مولانا مولوی حافظ حاجی سید شاہ عبدالصمد صاحب نقوی مودودی سہسوانی چشتی فخری نظامی تشریف فرمائے پھپھوند ضلع اٹاوہ ہیں-
(۵) اس مجلس میں رائے دینے کا اختیار ہر اہل سنت کو ہے اور امور انتظامی خاص علماے اہل سنت سے متعلق ہیں-
(۲)ارکان مجلس علماے اہل سنت - مجلس علماے اہل سنت کے اس تاسیسی اجلاس میں ۲۵علماے اہل سنت نے شرکت کی جن کے اسماے گرامی مجلس کے دستور العمل میں شائع کیے گئے ہیں- یہاں شائع شدہ فہرست کے مطابق اسماے گرامی درج کیے جاتے ہیں (اختصار کے پیش نظر ہم نے القاب و خطابات حذف کر دئیے ہیں)
۱- سید شاہ عبدالصمد سہسوانی، صدر مجلس علماے اہل سنت
۲- حضرت مولانا عبدالقادرمحب رسول قادری بدایونی
۳- حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب فاضل بریلوی
۴- حکیم سراج الحق صاحب برکاتی بدایونی
۵- مولانا محمد عبدالمقتدر صاحب قادری بدایونی
۶- مولانا وصی احمد محدث سورتی
۷- مولانا نواب محمد علی خاں صاحب رامپوری
۸- مولانا محمد امیر اللہ صاحب بریلوی
۹- مولانا محمد عبدالرشید صاحب ولایتی مدرس مدرسہ اکبریہ بریلی
۱۰- مولانا سید محمد نظیر الحسن صاحب مفتی جے پور
۱۱- مولانا محمد خلیل الرحمن صاحب پیلی بھیت
۱۲- مولانا محمد فضل مجید فاروقی بدایونی
۱۳- مولانا حکیم عبدالقیوم عثمانی برکاتی بدایونی
۱۴- مولانا محمد عبداللطیف صاحب سورتی
۱۵- مولانا عبدالسلام صاحب جبلپوری
۱۶- قاضی محمد بشیر الدین صاحب مدرس مدرسہ اسلامیہ اٹاوہ
۱۷- مولانا حافظ بخش قادری آنولوی
۱۸- مولانا عبدالنعیم صاحب رائے بریلی
۱۹- مولانا عبدالحق صاحب مدرس جامع مسجد پیلی بھیت
۲۰- مولانا سید محمد غوث قادری بریلوی
۲۱- مولانا محمد سلطان احمد خاں برکاتی بریلوی
۲۲- مولانا ضیاء الدین صاحب بریلوی
۲۳- مولانا محمد حامد رضا خاں صاحب برکاتی بریلوی
۲۴- مولانا محمد خلیل اللہ خاں صاحب بریلوی
۲۵- مولانا محمد ابراہیم صاحب بریلوی(۳)

مطبع اہل سنت کا قیام - مجلس علماے اہل سنت کی اسی تاسیسی میٹنگ میں مطبع اہل سنت و جماعت کے قیام کی تجویز پاس ہوئی اور اسی نشست میں مطبع کے قیام کے لیے سات سو روپے سے زیادہ کا چندہ جمع ہو گیا جس میں پانچ سو روپے کی پرنٹنگ پریس مع کل ساز و سامان کے اور ۱۱روپئے نقد شہزادۂ تاج الفحول حضرت مولانا مطیع الرسول عبدالمقتدر قادری بدایونی نے عطا فرمائے، اس کے علاوہ آپ نے ۴۸روپیہ سالانہ (۴روپئے مہینہ) دینے کا وعدہ کیا- اس نشست کے چشم دید گواہ مولوی عبدالحی پیلی بھیتی اپنے رسالے ’’سرگزشت و ماجرائے ندوہ‘‘ میں اس کا آنکھوں دیکھا حال یوں تحریر فرماتے ہیں:’’جب جلسہ ندوہ ختم ہو گیا اور حضرات ندوہ نے اصلاح و پابندیٔ مذہب اہل سنت کو کسی طرح قبول نہ کیا تو خادمان سنت نے معزز اہل سنت کو تکلیف اجتماع دی کہ حفظ مذہب حق کے لیے شوریٰ کریں یہ اطلاع سلخ شوال کو شہر میں صرف گیارہ اور شہر کہنہ میں فقط دو حضرات عالیات کی خدمت میں گئی مگر بحمد اللہ اہل سنت کا پاس مذہب کہ صبح ہی اہل شہر و واردین دیگر بلاد سے قریب ڈیڑھ سو آدمیوں کے مجتمع ہو گئے‘‘-

آگے لکھتے ہیں: ’’رائے پیش ہوئی سب نے یک زبان بالاتفاق فساد و شناعت ندوہ پر گواہی دی اور حفظ مذہب اہل سنت و دفع فتنۂ بدعت کے لیے مطبع اہل سنت و جماعت بہ نگرانی مجلس علماے اہل سنت جاری کرنے کی رائے قائم کی، یہ جلسہ مسجد حضرت عالم اہل سنت (فاضل بریلوی) میں بہ صدارت حضرت مولانا سید (عبدالصمد) فاضل نقوی چشتی نظامی فخری سہسوانی ہوا، اہل سنت کا مذہبی جوش کہ نہ اول سے اس کا کوئی ذکر تھا نہ ۱۳صاحبوں سے زیادہ کسی کو پیام گیا-نہ جلسہ میں تحریک کا نام آیا مگر مذہب حق کی محبت کہ اللہ عز و جل نے ان کے پاکیزہ دلوں میں بھر دی ہے، خود ہی اقامت مطبع اہل سنت کے لیے چندہ کے داعی ہوئے اور دفعتاً بتائید غیبی اسی جلسہ میں سات سو روپیہ سے زائد کا چندہ ہو گیا- عالی جناب مولانا مولوی محمد عبدالمقتدر صاحب بدایونی نے ولایتی کل (پریس) مع کل سامان پانچ سو روپئے سے زائد کی عطا فرمائی- (۴)

مطبع اہل سنت کے دستور العمل میں بھی ان تمام معاونین کا ذکر ہے جنھوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس مطبع کے قیام کے لیے تعاون کیا- دستور العمل کے مرتب لکھتے ہیں: ’’حضرات! یہاں بطور نمونہ و یادگار دو قسم کے بلندہمت عالی نہمت حضرات کی مثالیں مذکور ہوتی ہیں- سلخ شوال کو مسجد محلہ سوداگران میں جو اس مجلس مقدس کا اولین اجلاس ہوا، خدا کے پاک بندوں، مذہب حق کے حمایت پسندوں کا پاس دینی کہ بغیر کسی تحریک کے فرد چندہ کا افتتاح کیا اور اسی وقت سات سو روپیہ سے زائد کا چندہ ہو گیا، اعلیٰ معین مجلس مبارک حضرت مولانا مولوی محمد عبدالمقتدر صاحب بدایونی نے ولایتی کل (پرنٹنگ پریس) مع کل سامان پانچ سو روپیہ سے زائد کی خرید عطا فرمائی اور اس کے علاوہ گیارہ روپے نقد اور اڑتالیس روپئے سالانہ تحریر فرمائے- والا جناب حضرت سید احمد شاہ صاحب نے (جو) اجلۂ سادات کرام نو محلہ بریلی سے ہیں سو روپئے عطیہ اور ۴ روپیہ ماہوار، یہاں کے اہل سنت پنجابی صاحبوں نے پچاس روپئے نقد اور جناب حاجی محمد قاسم صاحب نے پانچ روپئے ماہوار لکھے، جناب مولوی ستار بخش صاحب رئیس بدایوں نے ۲۵روپئے نقد اور ۴ روپئے ماہوار اور جناب مولانا مولوی حکیم محمد سراج الحق صاحب علی گڑھی (عثمانی بدایونی)نے بھی چار روپئے ماہوار‘‘- (۵)

مطبع اہل سنت کے قیام کے لیے اہل ثروت کے ساتھ ساتھ بعض وہ حضرات جو بظاہر بالکل بے سرو سامان تھے انھوں نے بھی محض جذبۂ خدمت دین اور خلوص و للّٰہیت کی بنیاد پر تعاون پیش کیا- بریلی میں رہنے والی دو بے سہارا اور مفلس بیواؤں نے اپنی حیثیت کے مطابق ایک ایک دو انّی چندہ میں دی- جناب مولوی ستار بخش صاحب بدایونی رئیس بدایوں (مرید حضرت تاج الفحول) کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے اسی وقت ان دونوں بیواؤں کو ایک ایک روپیہ عنایت کیا- لیکن ان نیک نفس خواتین نے وہ روپیہ بھی فوراً مطبع اہل سنت کے لیے بھیج دیا- مطبع اہل سنت کے دستور العمل کے مرتب لکھتے ہیں :قسم دوم کی بے مثال مثال وہ ہمت بلند دو بیوہ و بے وسیلہ عورتیں مصداق علیکم بدین العجائزہیں جنھوں نے اپنی محض ناداری کی حالت میں ایک ایک دو اَنّی چندہ میں بھیجی اسے سن کر مولوی ستار بخش صاحب رئیس نے انھیں روپیہ عطا فرمایا- ان کی والا ہمتی کہ وہ روپیہ بھی چندے میں ارسال کیا فاعتبروا یا اولی الابصار- ‘‘(۶)

جیسا کہ ہم نے پیچھے ذکر کیا کہ اس مطبع کے قیام میں سب سے بڑا تعاون شہزادۂ تاج الفحول حضرت مولانا عبدالمقتدر قادری بدایونی قدس سرہٗ کا رہا کہ آپ نے مطبع کے لیے پرنٹنگ پریس مع کل سامان کے عطا فرمائی اور اپنے جد کریم امیر المومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت پر عمل کر کے اس قربانی اور سخاوت کی یاد تازہ کر دی جس کا مظاہرہ جیش عسرت (غزوۂ تبوک) کے موقع پر کیا گیا تھا- اس گراں قدر عطیہ پر ہی آپ نے اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ اپنے احباب سلسلہ کو بھی مطبع کے تعاون کی ترغیب دیا کرتے تھے- اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی آپ کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :’’میرے خیال میں قیام مطبع انشاء اللہ تعالیٰ نافع اور ندویوں (پر) آفت اور ان کے مریض دلوں کا غیظ ہے‘‘-

آگے فرماتے ہیں :’’واجد علی خاں کا چندہ جاری رہنا چاہیے اب کہ کئی ماہ سے نہ آیا ممکن ہے کہ تحریک سے دے دیں اور باذن اللہ دیتے رہیں، بعض احباب بمبئی و حیدرآباد وغیرہ سے اگر جلب اعانت ممکن ہو فبہا‘‘(۷)

مطبع اہل سنت کا دستور العمل - مطبع اہل سنت کا دستور العمل ۱۵؍دفعات پر مشتمل ہے- جس کی پہلی دفعہ حسب ذیل ہے:
۱-یہ مطبع واسطے طبع و اشاعت کتب و رسائل موئیدہ مذہب اہل سنت و ترویج مسائل نافعہ و فضائل اخلاقیہ و نصائح و مصالح دینیہ و دنیویہ کے حسب صوابدید مجلس علماے اہل سنت ماہ محرم ۱۳۱۴ھ سے قائم ہوا- (۸)
مطبع اہل سنت کے مہتمم - مطبع اہل سنت کے پہلے مہتمم حضرت مولانا حکیم مومن سجاد صاحب مشتاقؔ چشتی کانپوری ثم پھپھوندوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے- مطبع اہل سنت کے دستور کی دفعہ ۱۵ میں درج ہے-
۱۵- جملہ خط و کتابت بہ نشان بانس بریلی دفتر مطبع اہل سنت بنام مولوی حکیم مومن سجاد صاحب مہتمم مطبع ہونا چاہیے- (۹)

آپ کے پوتے مولانا ظہیر السجاد صاحب چشتی مصباحی تحریر فرماتے ہیں :’’جس زمانے میں ندوۃ الالعلما کی مخالفت کا زور تھا تو حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت قبلۂ عالم (حافظ بخاری سید شاہ عبدالصمد چشتی علیہ الرحمۃ) سے عرض کرکے مطبع اہل سنت کی مہتممی کے لیے حکیم صاحب کو مانگ لیا تھا چنانچہ کئی برس حکیم صاحب وہاں رہے‘‘-(۱۰)

حکیم مومن سجاد صاحب چشتی کا وطن اصلی بریلی تھا- آپ کے والد مولوی غلام سجاد صاحب کانپور میں چیف ریڈر کلکٹری تھے، ملازمت کی وجہ سے بریلی کی سکونت ترک کر کے مستقل کانپور میں قیام پذیر ہوگئے تھے- حکیم مومن سجا د صاحب کی تعلیم متوسطات تک تھی، فارسی میں خاصی مہارت رکھتے تھے- شاعری کا بھی ذوق تھا، مشتاقؔ تخلص فرماتے تھے شاعری میں حکیم امداد حسین صاحب انعامؔ کانپوری سے شرف تلمذ رکھتے تھے- متوسطات تک تعلیم ہونے کے باوجود ذاتی مطالعہ اور اکابر علما کی صحبت کے فیض سے علوم اسلامیہ پر اچھی نظر رکھتے تھے- آپ کے پوتے مولانا ظہیر السجاد صاحب لکھتے ہیں :’’ایک مرتبہ قبلۂ عالم (حافظ بخاری) بریلی تشریف لے گئے حضرت مولانا بریلوی نے دریافت کیا کہ حکیم صاحب کی تحصیل عربی کتنی ہے؟ حضرت نے فرمایا قطبی و میر تک، وہ متعجب ہوئے اور کہنے لگے حضرت فرما رہے ہیں تو میں مانے لیتا ہوں ورنہ حکیم صاحب کی قابلیت منتہی کتابوں سے کم نہیں معلوم ہوتی‘‘- (۱۱)

حکیم مومن سجاد صاحب سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حافظ بخاری سیدنا شاہ عبدالصمد چشتی نظامی علیہ الرحمۃ سے شرف بیعت رکھتے تھے- اپنے مرشد کی محبت میں ایسے سرشار ہوئے کہ بریلی اور کانپور کی سکونت ترک کر کے مستقل مرشد کے دیار پھپھوند شریف ضلع اٹاوہ (اب ضلع اوریا) میں قیام پذیر ہو گئے- ۱۳۳۱ھ میں وفات پائی اور وہیں دفن کیے گئے-

حضرت فاضل بریلوی نے اپنے قصیدے ’’آمال الابرار ‘‘میں ان تمام علماے اہل سنت کا ذکر کیا ہے جو پٹنہ کے تاریخی اجلاس (منعقدہ رجب ۱۳۱۸ھ)میںشریک ہوئے تھے،اس میں حکیم صاحب کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے:
حکیم مؤمن سجاد ربٍ--مجیدٍ عبدہ مجد اً یُفید (۱۲)

حکیم صاحب کوتصنیف و تالیف سے بھی شغف تھا، فی الحال آپ کے تالیف کردہ چار رسائل ہمارے پیش نظر ہیں ممکن ہے ان کے علاوہ بھی آپ کی تصانیف ہوں - یہ چاروں رسائل آپ کے زیر اہتمام مطبع اہل سنت و جماعت بریلی سے شائع ہوئے ہیں:
۱- فکّ فتنہ از بہار و پٹنہ ۱۳۱۴ھ
۲- اشتہارات خمسہ ۱۳۱۴ھ
۳- ندوہ کا ٹھیک فوٹو گراف ۱۳۱۴ھ
۴- غرش صور بر ندبۂ شاہجہاں پور ۱۳۱۶ھ

حکیم مومن سجاد صاحب چشتی مطبع اہل سنت کے سب سے پہلے مہتمم تھے لیکن کب تک آپ نے اہتمام کی ذمہ داریاں سنبھالیںاس سلسلہ میں پیش نظر مواد اور حوالوں کی روشنی میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے- ۱۳۱۴ھ، ۱۳۱۵ھ اور ۱۳۱۶ھ تک کی جو مطبوعات ہمارے سامنے ہیں ان میں سے اکثرپر مہتمم مطبع کی حیثیت سے حکیم صاحب کا نام درج ہے- حضرت فاضل بریلوی کی کتاب’’ جزاء اللہ عدوہ‘‘ ۱۳۱۷ھ میں مطبع اہل سنت سے پہلی بار شائع ہوئی، اس پر بحیثیت مہتمم مطبع کسی کا نام نہیں ہے- شوال ۱۳۱۸ھ میں مطبع اہل سنت سے قصیدہ ’’چراغ انس‘‘ شائع کیا گیا اس پر حضرت مولانا حسن رضا خاں صاحب بریلوی کا نام درج ہے- اس سے یہ قیاس کرنے کی گنجائش ہے کہ حکیم مومن سجاد صاحب اواخر ۱۳۱۶ھ تک بریلی میں قیام پذیر رہے اور مطبع اہل سنت و جماعت کے فرائض اہتمام بحسن و خوبی انجام دیتے رہے-

مطبع اہل سنت کی اشاعتی خدمات کے چار دَور - مطبع اہل سنت و جماعت کی شائع شدہ ۶۴کتابیں کتب خانہ قادریہ بدایوں شریف میں موجود ہیں جو ہمارے پیش نظر ہیں ان میں زمانی ترتیب کے اعتبار سے سب سے پہلی کتاب ’’دستور العمل مجلس علماے اہل سنت و مطبع اہل سنت‘‘ ہے جو ۱۷صفر ۱۳۱۴ھ /جون ۱۸۹۶ء کو شائع ہوئی اور آخری کتاب فاضل بریلوی کی ’’رادالقحط والوبائ‘‘ ہے جو ۱۲شعبان ۱۳۴۵ھ/مارچ ۱۹۲۷ء کو شائع ہوئی ہے- اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ مطبع اہل سنت سے شائع شدہ آخری کتاب ہے، اس کے بعد بھی یقینا مزید چند ماہ یا چند سال تک مطبع سے طباعت و اشاعت کا کام جاری رہاہوگا- تاہم اگر اسی کتاب کو آخری کتاب مان لیا جائے تب بھی یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ مطبع اہل سنت و جماعت نے کم از کم ۳۱؍سال طباعتی و اشاعتی خدمات انجام دیں ہیں ان ۳۱ سالہ خدمات کو ہم چار ادوار پر تقسیم کریں گے-

پہلا دور ۱۳۱۴ھ تا ۱۳۱۶ھ - اس دور میں حکیم مومن سجاد صاحب چشتی مطبع کے مہتمم رہے، پہلے دور میں شائع شدہ اکثر کتب و رسائل کا تعلق تحریک اصلاح ندوہ سے ہے-ہم نے اس دور کو ۱۳۱۶ھ تک محض قیاس کی بنیاد پر مانا ہے ،جس کی وجہ پیچھے ذکر کی گئی،ہمیں اس پر اصرار نہیں ہے ،اگر۱۳۱۶ھ کے بعد کی کوئی ایسی کتاب سامنے آتی ہے جس پر بحیثیت مہتمم حکیم صاحب کا نام درج ہویا کسی تاریخی شہادت سے یہ ثابت کر دیا جائے کہ حکیم صاحب ۱۳۱۶ھ کے بعد بھی مطبع کے مہتمم رہے تو ہمیں اسے قبول کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہوگا -

دوسرا دور ۱۳۱۷ھ تا ۱۳۲۸ھ - اس دور میں مطبع کس کے زیر اہتمام چلتا رہا اس کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی- ان گیارہ برسوں میں شائع شدہ جوکتابیں ہمارے پیش نظر ہیں ان پربحیثیت مہتمم کسی کا نام نہیں ہے، صرف دو کتابیں ایسی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں حضرت مولانا حسن رضا خاں صاحب بریلوی مطبع کے انتظام و انصرام کی نگرانی فرماتے تھے،ایک قصیدہ چراغ انس اور دوسرا ماہنامہ قہر الدیان- ۱۳۲۶ھ میں مولانا حسن رضا خاں صاحب کی وفات ہو گئی، معلوم نہیں اس کے اگلے تین سال (یعنی صدر الشریعۃ کے بریلی آنے تک) مطبع معطل رہا یا کسی اور کی زیر نگرانی کام ہوتا رہا- اس دور کی ایک بڑی خدمت سابق الذکر ماہنامہ ’’قہرالدیان علی مرتد بقادیان‘‘ کا اجرا ہے- یہ ماہنامہ حضرت مولانا حسن رضا خاں صاحب بریلوی کی زیر ادارت رجب ۱۳۲۳ھ کو مطبع اہل سنت بریلی سے جاری ہوا- جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس ماہنامہ کے اجرا کا مقصد فتنۂ قادیانیت کا رد و ابطال تھا-

ماہنامہ ’’قہرالدیان‘‘ کے پہلے شمارے کی پشت پر ’’ضوابط رسالہ‘‘ کے عنوان سے ۱۰دفعات میں رسالہ کے اغراض و مقاصد اور دیگر ضروری امور درج ہیں ،دفعہ ۵میں مرقوم ہے:’’اس رسالہ کا مقصد صرف مرزا و مرزائیان کا رد اور ان کے ان ناجائز حملوں کا دفع ہوگا جو انھوں نے عقائد اسلام و انبیاء کرام خصوصاً سیدنا عیسیٰ و حضرت مریم و خود حضور سیدالانام علیہ و علیہم الصلاۃ والسلام حتی کہ رب العزت ذوالجلال والاکرام پر کیے ہیں ،دوسرے فرقوں کا رد اس کا موضوع نہیں اس کے لیے بعونہ تعالیٰ مبارک رسالہ تحفۂ حنفیہ عظیم آباد نیز اہل سنت کی اور کتب کافی و وافی ہیں‘‘- (۱۳)

تیسرا دور ۱۳۲۹ھ تا ۱۳۴۳ھ - ۱۳۲۹ھ میں صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی مصنف بہار شریعت بحیثیت مدرس مدرسہ منظر اسلام بریلی میں تشریف لائے تو مطبع اہل سنت و جماعت کے اہتمام وانصرام کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کر دی گئی- آپ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی پہلی کتاب کفل الفقیہ الفاہم مع اردو ترجمہ ہے- یہ کتاب ۱۳۲۴ھ میں مکہ مکرمہ میں عربی میں تصنیف کی گئی اور ۱۳۲۵ھ میں پہلی بار مطبع اہل سنت سے عربی میں شائع ہوئی- ۱۳۲۹ھ میں اس کو مع اردو ترجمہ شائع کیا گیا- اردو ترجمہ کا تاریخی نام ’’نوٹ کے متعلق سب مسائل‘‘(۱۳۲۹ھ) ہے- سرورق پر یہ عبارت درج ہے:

باہتمام و اشاعت جناب مولانا مولوی محمد امجد علی صاحب اعظمی قادری مطبع اہل سنت و جماعت واقع بریلی میں طبع ہوا-

صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی صاحب کے اہتمام مطبع سنبھالنے سے مطبع میں ایک نئی جان پڑ گئی- آپ نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطبع کے نظام کو از سر نو استوار کیا اور اپنی زیر نگرانی و زیر اہتمام بے شمار کتب شائع کیں- آپ کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں کتابت کی اغلاط تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں- آپ خود ہی ان کتب کی پروف ریڈنگ کرتے تھے اور اس مہارت اور توجہ سے کرتے تھے کہ کسی غلطی کے باقی رہنے کا امکان بہت کم ہوتا تھا-

آپ کے زمانۂ اہتمام کا ایک بڑا کارنامہ فتاویٰ رضویہ جلد اول کی اشاعت ہے جو جہازی سائز کے ۸۸۰ صفحات پر مشتمل ہے- اسی دور میں مطبع اہل سنت سے بہار شریعت کی طباعت کا آغاز ہوا- ہمارے پیش نظر بہار شریعت حصہ ہفتم ہے جو ۱۳۴۲ھ میں شائع ہوئی ہے-

چوتھا دور از ۱۳۴۳ھ تا زوال مطبع - ۱۳۴۲ھ کے اواخر یا ۱۳۴۳ھ کے آغاز میں صدر الشریعہ دارالعلومعینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں بحیثیت صدر مدرس تشریف لے گئے- آپ کے جانے سے مطبع اہل سنت کی کارکردگی متأثر ہوئی لیکن فوراً ہی حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں صاحب عرف جیلانی میاں کی شکل میں مطبع کو ایک اور سہارا مل گیا- آپ کے زیر اہتمام مطبع اہل سنت سے علماے اہل سنت بالخصوص حضرت فاضل بریلوی کی تصانیف کی طبع و اشاعت کا سلسلہ از سرِ نوشروع ہوا- آپ کے زیر اہتمام شائع ہونے والے رسائل میں سے فاضل بریلوی کے پانچ رسائل ہمارے پیش نظر ہیں جن میں سے ۳ پر سنہ طباعت ۱۳۴۵ھ درج ہے اور دو پر سنہ کا اندراج نہیں ہے- ’’اعلام الاعلام بان ہندستان دارالسلام‘‘ رجب ۱۳۴۵ھ کی مطبوعہ ہمارے سامنے ہے اس کے سرورق پر یہ عبارت درج ہے:’’باہتمام جناب مولانا مولوی محمد ابراہیم رضا خاں صاحب خلف اکبر حضرت اقدس زیب سجادۂ آستانہ عالیہ رضویہ دامت برکاتہم‘‘-

۱۳۴۵ھ کے بعد کب تک یہ مطبع خدمات انجام دیتا رہا؟ اپنے محدود مطالعہ کی وجہ سے اس کا علم مجھے نہیں ہو سکا- یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس دور کے شائع شدہ رسالوں کے سرورق پر یہ عبارت بھی درج ہے : ’’جماعت رضاے مصطفی نے اپنے صرف سے چھاپا اور شائع کیا‘‘-

خلاصۂ بحث - (۱) مطبع اہل سنت و جماعت بریلی مجلس علماے اہل سنت کی صوابدید پر محرم الحرام ۱۳۱۴ھ میں محلہ سوداگران بریلی میں قائم ہوا-
(۲) مطبع کے قیام کے لیے جن مخلصین اہل سنت نے مالی تعاون پیش کیا ان میں حضرت مولانا محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی قدس سرہ کا نام نامی سر فہرست ہے ، جنھوں نے مطبع کے لیے پرنٹنگ پریس مع کل ساز و سامان کے، ۱۱؍روپیہ نقد اور ۴۸؍روپیہ سالانہ پیش کیے- اس کے علاوہ آپ نے اپنے احباب سلسلہ کو بھی اس کے تعاون اور مالی امداد کی طرف راغب کیا-
(۳) مطبع اہل سنت نے ۳۱؍سال سے زیادہ اشاعتی خدمات انجام دیں، جس کے نتیجہ میں علماے اہل سنت بالخصوص اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی بے شمار کتابیں منظر عام پر آ ئیں-
(۴) مطبع اہل سنت کی مطبوعات کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں فتاویٰ رضویہ جلد اول جو جہازی سائز میں ۸۸۰ صفحات پر مشتمل ہے بھی شامل ہے- ان مطبوعات میں سے ۶۴؍کتابیں اور رسائل راقم الحروف کی آبائی لائبریری ’’کتب خانہ قادریہ‘‘ واقع مدرسہ قادریہ بدایوں میں محفوظ ہیں-
(۵) مطبع اہل سنت کے ۴ مہتمم حضرات کا علم ہو سکا جو حسب ترتیب زمانی درج ذیل ہیں:
(۱) حضرت مولانا حکیم مومن سجاد چشتی مشتاقؔ کانپوری ثم پھپھوندوی (متوفی ۱۳۳۱ھ) از قیام مطبع ۱۳۱۴ھ تا۱۳۱۶ھ
(۲) حضرت مولانا حسن رضا خاں صاحب بریلوی (متوفی ۱۳۲۶ھ) از ۱۳۱۷ھ تا ۱۳۲۶ھ
(۳) صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی صاحب (متوفی ۱۳۶۷ھ) مہتمم از ۱۳۲۹ ھ تا ۱۳۴۲ھ
(۴) حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں صاحب جیلانی میاں (متوفی ۱۳۸۵ھ) مہتمم ۱۳۴۳ھ تا زوال مطبع(اندازاً۱۳۴۵ھ)

آخری بات - مطبع اہل سنت و جماعت کی زریں خدمات کا ایک سرسری جائزہ آپ نے ملاحظہ فرمایا- اس مطبع کی خدمات اس قابل ہیں کہ اس پر باقاعدہ تحقیقی کام ہو اور اس کی ایک مفصل تاریخ مرتب ہو کر منظر عام پر آئے-
مردے از غیب بروں آید و کارے بکند

رضویات پر گہری نظر رکھنے والے معاصر قلم کار مولانا شہاب الدین رضوی لکھتے ہیں:’’موجودہ زمانے میں امام احمد رضا بریلوی کی تصانیف پر سیکڑوں تعارفی مقالے لکھے گئے اگر غور کیا جائے تو یہ فیض مطبع اہل سنت و جماعت اور حسنی پریس کا ہے، کیونکہ امام کی تصانیف انھیں دو پریس کی شائع کردہ ہیں- دنیائے اہل سنت و جماعت خصوصاً حلقہ بگوش رضویت مطبع اہل سنت اور حسنی پریس کے اس احسان عظیم کے ممنون و متشکر ہیں‘‘- (۱۴)

اگر یہ بات درست ہے تو ’’دنیاے اہل سنت و جماعت خصوصاً حلقہ بگوش رضویت‘‘کوحضرت مولانا محمد عبدالمقتدر قادری بدایونی قدس سرہ کابھی احسان مند اورممنون و متشکرہونا چاہیے کہ انہوں نے اور ان کے وابستگان نے کثیر سرمایہ صرف کر کے مطبع اہل سنت کے قیام کے دشوار مرحلے کو آسان فرمادیا-
(جامِ نور مئی ۲۰۰۹ئ)

حواشی
(۱) دستور العمل مجلس علماے اہل سنت و مطبع اہل سنت ، ص:۱، مطبوعہ مطبع اہل سنت و جماعت بریلی ۱۳۱۴ھ
(۲) مرجع سابق ص:۳
(۳) مرجع سابق ص:۸
(۴) سرگزشت و ماجرائے ندوہ، ص: ۴۶، ۴۷، نادری پریس بریلی ۱۳۱۴ھ
(۵) دستور العمل مجلس علماے اہل سنت و مطبع اہل سنت ، ص:۷، مطبوعہ مطبع اہل سنت و جماعت بریلی ۱۳۱۴ھ
(۶) مرجع سابق ص:۷
(۷) مکتوب فاضل بریلوی بنام مولانا عبدالمقتدر صاحب بدایونی، محررہ ۱۰؍شعبان ۱۳۱۸ھ مملوکہ کتب خانہ قادریہ بدایوں
(۸) دستور العمل مجلس علماے اہل سنت و مطبع اہل سنت ، ص:۴؍۵، مطبوعہ مطبع اہل سنت و جماعت بریلی ۱۳۱۴ھ
(۹) مرجع سابق ص:۷
(۱۰) ملفوظ مصابیح القلوب : ظہیر السجاد پھپھوندوی، ص: ۱۲۱، ۱۲۲، مطبع انتظامی کانپور ۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء
(۱۱) مرجع سابق ص:۱۲۲
(۱۲) آمال الابرار وآلام الاشرار:اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی،ص۱۵،مطبع حنفیہ پٹنہ۱۳۱۸ھ
(۱۳) ماہنامہ قہرالدیان بریلی جلد ۱، شمارہ ۱، ص: ۱۸، مطبوعہ مطبع اہل سنت بریلی، رجب ۱۳۲۳ھ
(۱۴) امام احمد رضا کی تحریکات اور صدر الشریعہ کی خدمات : مولانا شہاب الدین رضوی، مقالہ مشمولہ صدر الشریعہ نمبر، ص: ۲۷۲، ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور، جلد ۲۰، شمارہ ۱۰،۱۱، ۱۹۹۵ء

یہ مضمون علامہ مولانا مفتی اسید الحق عاصم قادری بدایونی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مضمون مشہور ماہوار جریدہ جام نور دہلی میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 412810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.