عزم حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ

عزم حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ
اور حالاتِ حاضرہ
عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی

آج کل مسلمانوں کی جو صورتِ حال ہے اس سے ہر فرد و شخص بخوبی واقف ہی۔آئے دن اخبارات و رسائل اس کی مکمل روداد شائع کرتے رہتے ہیں۔ آج دہشت گردی، ٹررازم ، آتنک واداور نہ جانے کیا کیا الفاظ سے مسلمانوں کو یاد کیا جاتاہے۔ہر طرف سے ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ ان کے حوصلہ کو پست کیا جارہاہے، ان کو بزدل بنانے کی کوشش ہر طرف سے جاری ہے۔ اس وقت تمام عالم اسلام کو ذلیل و رسواکرنے کی سازش عام ہے۔ ان کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر کمزور اور ناکارہ بنانے کی جد و جہد مسلسل جاری ہے۔ ان کے ممالک کو برباد کرنی، ان کی مسجدوں کو مسمار کرنی، ان کے تعلیمی اداروں کو دہشت گردی کے اڈے ثابت کرنے، ان کے معاشی ، ثقافتی ، تمدنی کلچرکو برباد کرنے کی ہر طرف سے یلغار جاری ہے۔

امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت جس طرح سے ہوئی ، ان پر ان کے خاندان پر ، ان کے بچوں پرجس طرح کے پہاڑ توڑے گئے تاریخ میں ایسے واقعات ملنے مشکل ہیں۔ حضرت امام کے مقابلے میں تقریباً 5 ہزار جنگجومع لاؤ لشکر اور مکمل تیاری کے بے بس نظر آرہے تھی۔جب کہ حضرت امام کی جماعت صرف ۲۷ لوگوں پر مشتمل تھی۔امام کی جماعت کا ایک ایک فرد تقریباً مخالف جماعت کے دس دس بارہ بارہ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیے۔جس وقت شمر نے براہ راست حضرت حسین پر حملہ کیا آپ کے ساتھی آپ کو بچانے کے لئے سراپا ڈھال بن گئے ۔دشمن ہر طرف سے حملے کر رہے تھے ۔ تیروں اور تلواروں کی بارش ہورتھی، آپ کے ساتھی ہمت و مردانگی سے لڑرہے تھے یہاں تک کی ہر ایک نے جام شہادت نوش فرمالی ۔ سب سے آخر میں شہید ہونے والے سوید ابن ابی مطاع تھے ۔آپ کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ جس مردانگی کا مظاہرہ کیا، تاریخ میں ایسے باب ملنے مشکل ہیں۔

امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے سامنے علی اکبر ابن حسین کو شہید کردیا گیاامام حسین یہ منظر اپنی آنکھو سے دیکھ رہے تھے ۔آپ کا دل بھر آیا آپ نے کہا :بیٹے یہ لوگ کتنے نڈر ہیں اپنے نبی کی حرمت کا بھی خیال نہیں کرتے۔ بیٹے تیرے بعد دنیا بے مزہ ہے ۔ کربلا میں امام حسین نے اپنے پورے خاندان کو خود اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا ۔ آپ کے بھتیجے قاسم ابن حسین تلوار لے کر نکلے، عمرو ابن سعید نے ان کے سر پر حملہ کیا اور وہ گر گئے، گرتے ہوئے انہوں نے امام حسین کو مدد کے لیے بلاتے ہوئے کہا ہائے چچا! امام اس کی طرف فوراً آئے مگر وہ شہید ہو چکا تھا۔ یہ منظر آپ کے لئے انتہائی دردناک تھا۔ آپ نے کہا اﷲ کی قسم یہ تیرے چچا کے لیے نہایت مشکل ہے کہ تو بلائے اور وہ تیری مددکے لئے نہ آسکے۔ پھر آپ نے خود اسے اٹھایا اور اپنے بیٹے علی اکبر کے پاس لٹادیاجو پہلے قتل ہو چکے تھے۔امام حسین اپنے چھوٹے بیٹے عبد اﷲ کو گود میں لیے ہوئے تھے کہ ایک تیر اس کو آکر لگا اور وہ وہیں شہید ہو گیا ۔

ایک موقعے پر شمر نے کچھ لوگوں کو حضرت حسین کے قتل کے لیے ابھارا بحر ابن کعب آپ کی طرف آیا ۔ ایک بچہ اندر سے نکلا اور بولا کہ اﷲ کے دشمن تو میرے چچا کو قتل کرے گا اس نے تلوار سے حملہ کیا۔ بچے نے ہاتھ سے روکا، ہاتھ کٹ کر رہ گیا، بچے کی زبان سے نکلا ہائے ماں ! امام حسین نے گلے سے لگا لیا اور کہا بیٹے صبر کرو ابھی تم اپنے آباء واجداد سی، رسول اﷲ ؐ سی، علی ؓسی، حمزہؓ سی، جعفرؓ سے اور حسنؓ سے جا ملو گے۔

اب خود امام حسین نے حملے شروع کئے۔ آپ جس طرف متوجہ ہوتے میدان صاف ہو جا تا، آپ نے دائیں بائیں ہر طرف حملے کئے اور دشمنوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا، دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ ایسا بہادر نہ ان کی آنکھوں نے کبھی دیکھانہ ان کے کانوں نے کبھی سنا۔ ایسا مضبوط دل والا بھی کوئی نہیں دیکھا گیاجس کے بیٹے، بھتیجے، گھر والے اور ساتھی قتل ہو گئے ہوں اور وہ اس شان کے ساتھ ثابت قدم ہو ۔آپ ہر طرف حملہ کر رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تم میرے قتل کے لئے جمع ہو؟ خدا کی قسم میرے بعد ایسے کسی انسان کو قتل نہیں کروگے جس کے قتل پر اﷲ زیادہ نا راض ہو ۔ بہت دیر تک آپ اسی طرح لڑتے رہے۔کسی کوفی کی یہ ہمت نہیں ہورہی تھی کہ حضرت امام حسین کو قتل کرنے کی ذمہ داری اس سے منسوب ہو۔ ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کام کوانجام دے ۔آخر جب معاملہ زیادہ لمبا ہو گیا تو شمرظالم نے ایک دستہ لیکر براہ راست حملہ کیا، زرعہ ابن شریک تمیمی نے آپ پر حملہ کرکے بایاں ہاتھ زخمی کر دیا، ایک ضرب آپ کے شانے پر بھی لگی، اسی حالت میں سنان ابن انس نخعی ملعون نے آپ پر گہرا وار کیا، ایک نیزہ مارا اور آپ اﷲ سے جا ملے۔ سنان ہی نے آپ کی گردن کاٹی لعنہ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعون۔ اس کے بعد دس گھوڑ سواروں نے آپ کی لاش کو گھوڑوں سے روندا ۔جس سے آپ کی تمام ہڈیاں سینہ اور پیٹھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو قبیلہء بنو اسد کے لوگوں نے اگلے دن دفن کیا ۔

اس حق و باطل معرکہ میں امام حسین کے ایک چھوٹے صاحب زادے علی ابن الحسین المعروف امام زین العابدین بیمار تھے اور وہ زندہ بچ گئے تھے ۔شمر ظالم نے ان کوبھی قتل کرنے کی کوشش کی مگر ابن سعد نے بیچ میں پڑ کران کی حفاظت کی ۔کچھ لوگوں نے اہل بیت کو لوٹامارااور ان کے سامان وغیرہ پر قبضہ بھی کر لیا۔

شہادتِ حسین یہ تاریخ اسلامی کا ایک ایسا تاریک اور سیاہ واقعہ ہے کہ امت مسلمہ سے اس کی ہر گزامید نہیں تھی کہ وہ اپنے پیارے نبی ؐکے نواسے اور جگر کے ٹکڑے کے ساتھ ایسا بد بختانہ سلوک کرے گی۔

آپ یزیدکی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھی۔آپ اس کی خلافت کو ملت اسلامیہ کے لیے باطل سمجھتے تھی۔ آپ حضور ؐکے نواسے حضرت ِ علیؓ کے بیٹے تھے آخر آپ اس کوکیسے برداشت کرتے کہ امت مسلمہ کااہم معاملہ کسی نااہل کے ہاتھوں میں چلا جائے اور آپ خاموش تماشائی بنے رہیں۔آپ امت مسلمہ کو ایک لائحہ عمل دینا چاہتے تھے اوراسلامی حکومت کو مضبوط و مستحکم اور اسلام کے مستقبل کو پورے طور پر کامیاب دیکھنا چاہئے تھی۔اس کے لئے آپ نے اپنے خاندان کو شہید کرکے امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا کہ اگرحق کے لئے جان دینے کی بھی ضرورت پڑے تو اس کو بھی قربان کیا جاسکتاہے۔ وقت کی سب سے بڑی طاقت بھی اگر مخالف ہو جائے تب بھی دامن حق کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔اپنے حقوق کے لئے اس وقت تک لڑنا چاہئے جب تک خون کا آخری قطرہ جسم میں باقی رہے۔

آج مسلمانوں میں عزمِ حسین پیداکرنے کی ضرورت ، اپنے حوصلے کو بلند رکھنے کا وقت ہی، اپنی اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہی، مسلک ومشرب سے اوپر ہوکر سوچنے کی ضرورت ہی،اپنی آواز میں بلند ہمتی کی ضرورت ہے، اپنے خیالات کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے ۔تب کہیں جاکر اس دھرتی پر رہ سکتے ہیں .... ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے پیروں میں کڑیاں ہوں، ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں، ہمارے چہرے پر کالے کپڑے پڑے ہوں اور ہماری آوازوں کو کوئی سننے والا نہ ہو۔ ہم حق پر رہ کر بھی حق ثابت نہ کرسکیں اور باطل تمام غلط شواہد ہمارے سامنے پیش کردے۔

اٹھو ! اٹھو ! اے حسینی سپوتو ! اٹھو ! اپنے وقت کو ضائع مت کرو ! خوابِ غفلت سے بیدار ہو ! اپنے حقوق کے لئے جدو جہد کرو ! ہم ہی سے اس ملک کا مستقبل وابسطہ ہے۔ ہم ہی اس ملک کے اول درجے کے شہری تھے اور ہیں۔ ہمارے پرکھو ں نے اسے آزاد کرایا۔ ہمارا اس ملک میں برابر کا حق ہی۔ہم کو ہی اس ملک کو برباد ہونے سے بچاناہے۔ہم نے اس سے پہلے بھی اس چمن کی حفاظت کی ہے ۔ ہم ہی اس کو دہشت گردی ، ہندو واد بننے سے بچاسکتے ہیں۔پھر بھی ہم غیروں سے امید لگائے ہوئے کھڑے ہیں۔ ہمارے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے ۔ ہماری آوازپر کوئی کان نہیں دھررہاہے۔ آخر ہم نے کیا خطا کیا ہے ! ہمیں کو دہشت گرد کیوں کہا جارہا ہے ! اس پر غور کر نے کی ضرورت ہی۔خدایا مری یہی دعا ہے ۔مسلمانوں میں عزمِ حسین پیداکر۔ ٭
Abdullah Salman Riyaz Qasmi
About the Author: Abdullah Salman Riyaz Qasmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.