سارہ الیاسی
اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے۔ محرم کو محرم اس لئے کہا جاتا ہے
کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے۔ اس مہینے کے اہم واقعات میں دس تاریخ کو
امام حسین ابن علی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت بروز عاشورہ شامل ہے۔یقینا
محرم الحرام کا مہینہ عظمت والا اوربابرکت مہینہ ہے ، اسی ماہ مبارک سے
ہجری سن کی ابتداء ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے یہ
اللہ تعالٰیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں عاشورہ کا دن بہت معظم ہے یعنی
دسویں محرم کا دن۔جن کے بارہ میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے : یقینا اللہ
تعالٰی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور( یہ تعداد ) اسی دن سے ہے جب سے
آسمان وزمین کواس نے پیدا فرمایا تھا ، ان میں سے چارحرمت وادب والے مہینے
ہیں ، یہی درست اورصحیح دین ہے ، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم
نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے جھاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ،
اورجان رکھو کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے - التوبہ ( 36 ) اورابوبکرہ
رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :( سال کے بارہ میں مہینے ہیں جن میں سے چارحرمت والے ہیں ، تین
تومسلسل ہیں ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، اورمحرم ، اورجمادی اورشعبان کے مابین
رجب کامہینہ جسے رجب مضرکہا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2958 )۔اورمحرم
کو محرم اس لئے کہ جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینہ ہے اوراس کی حرمت کی
تاکید کے لیے اسے محرم کانام دیا گیاہے۔اوراللہ سبحانہ وتعالٰی کا یہ فرمان
:لہذا تم ان میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ : ان
حرمت والے مہینوں میں ظلم نہ کرو کیونکہ ان میں گناہ کرنا دوسرے مہینوں کی
بہ نسبت زیادہ شدید ہے۔
عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ءکا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان
کی گئی ہے ۔ اکثر علماءکا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس
لئے اس کو عاشورہ کہا گیاجبکہ بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالٰیٰ نے جو بزرگیاں
دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی
ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں۔ مکاشف القلوب میں امام محمد غزالی
علیہ الرحمہ کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰیٰ عنہما سے مروی ہے کہ
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو
عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا
: اس دن میں اللہ تعالٰیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو
فرعون پر غلبہ عطا کیا۔ ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم موسیٰ علیہ السلام سے
زیادہ قریب ہیں، چنانچہ آپ نے اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔یومِ عاشورہ کے
فضائل میں بکثرت روایات آتی ہیں۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول
ہوئی، اس دن ان کی پیدائش ہوئی، اسی دن جنت میں داخل کئے گئے۔ اسی دن عرش،
کرسی ، آسمان وزمین، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا ہوئے۔ اسی دن حضرت
ابراہیم علیہ السلام پیداہوئے، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت
موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی اور فرعون اور اس کے
ساتھی غرق ہوئے۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، اور اسی دن وہ
آسمان پر اٹھالیے گئے۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام (آسمان)
پراٹھالیا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی۔ اسی
دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت سلیمان
علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی
بینائی واپس ہوئی۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دور ہوئی۔ اسی دن
زمین پر آسمان سے پہلی بارش ہوئی۔ (مکاشف القلوب )
َعاشورہ کے دن سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا،
نوحہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا جیسا کہ رافضیوں کا طریقہ ہے
حرام اور گناہ ہے اِیسے افعال شنیعہ سے اجتنا ب کلی کرنا چاہئے۔ ایسے افعال
پر سخت ترین وعیدیں آئی ہیں جن میں سے چند تحریر کی جاتی ہیں:عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے کہ ہمارے طریقے پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریبان
پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ نے
فرمایا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ، پر بے ہوشی طاری ہوگئی پس آئی
اس کی عورت جس کی کنیت ام عبداللہ تھی اس حال میں رونے کے ساتھ آواز کرتی
تھی۔ جب ان کو افاقہ ہوا تو کہا کیا تو نہیں جانتی اور تھے ابو موسیٰ رضی
اللہ تعالٰیٰ عنہ جو اس کو خبر دے رہے تھے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے فرمایا: میں بیزار ہوں اس شخص سے جو بال منڈائے اور بلند آواز سے روئے
اور کپڑے پھاڑے۔ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار خصلتیں میری امت میں
جاہلیت کے کام سے پائی جاتی ہیں فخر کرنا، اپنے حسب میں طعن کرنا، عیب
نکالنا لوگوں کی نسب میں، بارش طلب کرنا ستاروں سے اور ماتم میں نوحہ کرنا۔
اور فرمایا نوحہ کرنے والی مرنے سے قبل توبہ نہ کرے تو قیامت کے روز کھڑی
کی جائے گی اس حال میں کہ گندھک کی قمیص اس پر ہوگی اور ایک قمیص خارش والی
ہوگی۔
ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :( سال کے بارہ میں مہینے ہیں جن میں سے چارحرمت والے ہیں ، تین
تومسلسل ہیں ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، اورمحرم ، اورجمادی اورشعبان کے مابین
رجب کامہینہ جسے رجب مضرکہا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2958 )۔اورمحرم
کو محرم اس لئے کہ جاتا ہے کہ یہ حرمت والا مہینہ ہے اوراس کی حرمت کی
تاکید کے لیے اسے محرم کانام دیا گیاہے۔
اوراللہ سبحانہ وتعالٰی کا یہ فرمان :لہذا تم ان میں اپنی جانوں پرظلم وستم
نہ کرو اس کا معنی یہ ہے کہ :یعنی ان حرمت والے مہینوں میں ظلم نہ کرو
کیونکہ ان میں گناہ کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زیادہ شدید ہے۔اورابن عباس
رضی اللہ تعالٰی عنہما سےاس آیت :لہذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ پرظلم وستم
نہ کرو کے بارہ میں مروی ہے :تم ان سب مہینوں میں ظلم نہ کرو اورپھر ان
مہینوں میں سے چارکو مخصوص کرکےانہیں حرمت والے قراردیا اوران کی حرمت
کوبھی عظیم قراردیتے ہوئے ان مہینوں میں گناہ کاارتکاب کرنا بھی عظیم گناہ
کا باعث قرار دیا اوران میں اعمال صالحہ کرنا بھی عظیم اجروثواب کاباعث
بنایا۔اورقتادہ رحمہ اللہ تعالٰی اس آیت : لھذا تم ان مہینوں میں اپنے آپ
پر ظلم وستم نہ کرو ‘کے بارہ میں کہتے ہیں :حرمت والے مہینوں میں ظلم وستم
کرنادوسرے مہینوں کی بنسبت یقینا زیادہ گناہ اوربرائی کا باعث ہے ، اگرچہ
ہرحالت میں ظلم بہت بڑی اور عظیم چیز ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالٰی اپنے
امرمیں سے جسے چاہے عظیم بنا دیتا ہے :اورقتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :بلاشبہ
اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنی مخلوق میں سے کچھ کواختیارکرکے اسے چن لیا ہے
: فرشتوں میں سے بھی پیغیبر چنے اورانسانوں میں سے بھی رسول بنائے ،
اورکلام سے اپنا ذکر چنا اورزمین سے مساجد کواختیار کیا ، اورمہینوں میں سے
رمضان المبارک اورحرمت والے مہینے چنے ، اورایام میں سے جمعہ کا دن
اختیارکیا ، اورراتوں میں سے لیلۃ القدر کوچنا ،لہذا جسے اللہ تعالٰی نے
تعظیم دی ہے تم بھی اس کی تعظیم کرو ، کیونکہ اہل علم وفھم اورحل وعقد کے
ہاں امور کی تعظیم بھی اسی چیز کےساتھ کی جاتی ہے جسے اللہ تعالٰی نے تعظیم
دی ہے۔ انتھی تفسیر ابن کثیر ‘تفسیر ابن کثیر سورة التوبہ آیت نمبر ( 36 )۔
محرم الحرام کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھنے کی فضیلت :ابوھریرہ رضی اللہ
تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(
رمضان المبارک کے بعدافضل ترین روزے اللہ تعال کے مہینہ محرم الحرام کے
روزے ہیں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1982 )۔قولہ : ( شھراللہ ) اللہ تعالٰی
کا مہینہ یہاں مہینہ کی اللہ تعالٰی کی طرف تعظیمااضافت کی گئی ہے یعنی
یہاں اضاف تعظیم ہے۔ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول ہے : ظاہر یہ ہے کہ یہاں
سب حرمت والے مہینے مراد ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے
کہ آپ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مہینہ کے مکمل روزے نہیں رکھے ،
لھذا اس حدیث کومحرم میں کثرت سےروزے رکھنے پرمحمول کیا جائے گا نہ کہ پورے
محرم کے روزے رکھنے پر۔اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے ، ہوسکتا ہے کہ
محرم کی فضیلت کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری عمر میں وحی کی
گئی ہو اورآپ روزے نہ رکھ سکے ہوں۔۔۔ دیکھیں : شرح مسلم للنووی رحمہ اللہ۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی ہی جگہ اورزمانے واوقات سے جوچاہے اختیار کرلیتا
ہے۔عزبن عبدالسلام رحمہ اللہ تعالٰی کہتے ہیں :جگہوں اورزمانے کی فضیلت
دوقسموں کی ہوتی ہے :ایک قسم تودنیاوی اوردوسری دینی ہے جواللہ تعالٰی کی
طرف لوٹتی ہے جس میں اللہ تعالٰی اپنے بندوں پران اوقات اورجگہوں میں عمل
کرنے والوں پراجروثواب کی جودوسخاکرتا ہے ، مثلا رمضان المبارک کے روزوں
کوباقی سارے مہینوں کے روزوں پرفضیلت حاصل ہے ، اوراسی طرح عاشورہءکے روزہ
رکھنے کی فضلیت تواس کی فضیلت اللہ تعالٰی کی جود وسخا اوراپنے بندوں
پراحسان کی طرف لوٹتی ہے۔
محرم الحرام شریف میں رونما ہونے والے چند اہم واقعات اس طرح سے
ہیں:٭عاشورہ کا روزہ رکھنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ٭سیدتنا
امّ کلثوم بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت عثمان ذوالنورین
سے ٭غزوہ خیبر ٭عام الوفود (ساٹھ وفود آئے جنہیںحضورﷺ نے تعلیم دی اور
تحائف بھی دیئے ٭طاعون عمواس٭وفات ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭امارت
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭مصر میں عمرو بن العاص رضی اللہ
تعالٰی عنہ کا داخلہ ٭فتح نہاوند٭شہادت حضرت امیر المومنین سیدنا عمر فاروق
رضی اللہ تعالٰی عنہ٭خلافت حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭فتح سابور ٭فتح
قبرص ٭واقعہ صفین ٭وفات خوات رضی اللہ تعالٰی عنہ و عقبہ رضی اللہ تعالٰی
عنہ ٭فتوحاتِ افریقہ ٭وفات حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭وفات
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭وفات سعد بن ابی وقاص رضی اللہ
تعالٰی عنہ ٭وفات ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ٭وفات سمرة
بن جندب رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭سانحہ کربلا(سیدنا امام عالی مقام امام حسین
رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی شہادت ) ٭وفات مسلم بن عقبہ (فاتح افریقہ)
٭خلافت مروان ٭وفات عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ٭فتح فرغانہ٭فتح
میورقہ و منورقہ ٭وفات کریب موٹی بن عباس ٭فتح غور ٭زید بن علی کی
شہادت٭مراکش و الجیریا میں جنگ٭میسرہ کی مغرب میں بغاوت٭ضحاک خارجی کا خروج
اور قتل٭ابو مسلم کا خراسان پر قبضہ ٭بنو امیہ کا قتل عام٭کوفہ سے انبار کو
دار الخلافہ منتقل کیا گیا٭وفات عطاءبن السائب الکونی٭خلافت منصور العباسی۔
٭قیصر روم کی شکست وغیرہ۔ |