پیارے بچو! آپ کو ایک اسلامی
تاریخی واقعہ ولید بن مغیرہ کی اسلام دشمنی پیش کیا جاتا ہے
روایت ہے کہ “ولید بن مغیرہ“ جان کنی کے وقت بہت زیادہ بےچین ہو کر تڑپنے
اور بےقرار ہو کر رونے لگے اور فریاد کرنے لگے۔ تو ابوسفیان نے پوچھا کہ
چچاجان! آخر آپ کی بےقراری اور اس گریہ و زاری کی کیا وجہ ہے ؟ تو “ولید بن
مغیرہ“ بولا کہ میرے بھتیجے! میں اس لئے اتنی بےقراری سے رو رہا ہوں کہ
مجھے اب یہ ڈر ہے کہ میرے بعد مکہ میں محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم) کا دین پھیل جائے گا! یہ سن کر ابوسفیان نے تسلی دی اور کہا کہ چچا!
آپ ہرگز ہرگز اس کا غم نہ کریں میں ضامن ہوتا ہوں کہ میں دین اسلام کو مکہ
میں نہیں پھیلنے دوں گا۔ چنانچہ ابوسفیان اپنے اس عہد پر اس طرح قائم رہے
کہ مکہ فتح ہونے تک وہ برابر اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہے، مگر فتح مکہ کے
دن ابوسفیان نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ایسے صادق السلام بن گئے کہ
اسلام کی نصرت و حمایت کے لئے زندگی بھر جہاد کرتے رہے، اور انہی جہادوں
میں کفار کے تیروں سے ان کی آنکھیں زخمی ہو گئیں اور روشنی جاتی رہی یہی وہ
حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جن کے سپوت بیٹے حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ (مدارج النبوۃ ج2 ص73 وغیرہ )
اسی سال سن1ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت ہوئی۔
ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں سب سے پہلا بچہ ہو پیدا ہوا وہ یہی حضرت
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔ ان کی والدہ حضرت بی بی اسماء جو
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صاحبزادی ہیں۔ پیدا ہوتے ہی ان
کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور کھجور چبا کر ان کے منہ میں
ڈال دی اس طرح سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں پہنچی وہ حضور اقدس صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی
اللہ تعالٰی عنہما کی پیدائش سے مسلمانوں کو بےحد خوشی ہوئی اس لئے کہ
مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں نے مہاجرین پر ایسا جادو کیا ہے
کہ ان لوگوں کے یہاں کوئی بچی پیدا ہی نہیں ہو گا۔ (زرقانی ج1 ص460 و اکمال) |