پیارے بچو! آپ کو ایک تحریر ابو
جھل کی رسول دشمنی پیش کی جاتی ہے
ابو جھل کی رسول دشمنی :
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم “ ذو المجاز “ کے بازار میں دعوت
اسلام کا وعظ فرمانے کیلئے تشریف لے گئے اور لوگوں کو کلمہ حق کی دعوت دی
تو ابو جہل آپ پر دھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو ! اس کے
فریب میں مت آنا یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عزٰی کی عبادت چھوڑ دو۔ (
مسند امام احمد ج4 وغیرہ )
اسی طرح ایک مرتبہ جب کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم کعبہ میں نماز
پڑھ رہے تھے عین حالت نماز میں ابو جہل نے کہا کہ کوئی ہے؟ جو آل فلاں کے
ذبح کئے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لاکر سجدہ کی حالت میں ان کے کندھوں پر رکھ دے
یہ سن کر عقبہ بن ابی معیط کافر اٹھا اور اس اوجھڑی کو لا کر حضور صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم کے دوش مبارک پر رکھ دیا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
سجدہ میں تھے دیر تک اوجھڑی کندھے اور گردن پر پڑی رہی اور کفار ٹھٹھا مار
مار کر ہنستے رہے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر گر گر پڑتے رہے۔ آخر حضرت
بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جو ان دنوں ابھی کمسن لڑکی تھیں آئیں اور
ان کافروں کو برا بھلا کہتے ہوئے اس اوجھڑی کو آپ کے دوش مبارک سے ہٹا دیا
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قلب مبارک پر قریش کی اس شرارت سے
انتہائی صدمہ گزرا اور نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ یہ دعا مانگی کہ “
اللٰھم علیک بقریش “ یعنی اے اللہ ! تو قریش کو اپنی گرفت میں پکڑ لے پھر
ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عمارہ
بن ولید کا نام لے کر دعا مانگی کہ الٰہی، تو ان لوگوں کو اپنی گرفت میں لے
لے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم !
میں نے ان سب کافروں کو جنگ بدر کے دن دیکھا کہ ان کی لاشیں زمین پر پڑی
ہوئی ہیں۔ پھر ان سب کفار کی لاشوں کو نہایت ذلت کے ساتھ گھسیٹ کر بدر کے
ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ان گڑھے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔ ( بخاری ج1ص74 باب المراۃ تطرح الخ ) |