نام ونسب: ۔
نام ، محمد ۔کنیت ، ابو عبداللہ ۔والد کا نام ، ادریس ہے ، سلسلہ نسب یوں
ہے ، ابو عبداللہ محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع بن السائب بن
عبیدبن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف ۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا حضرت ہاشم پر آپ کا سلسلہ نسب
ملتا ہے لہذا آپ قرشی ہیں اوریوں ائمہ اربعہ میں آپکو امتیازی حیثیت حاصل
ہے ۔
آ پ کے دادا ’ العباس ‘ کے داداشافع تھے جو صغار صحابہ سے ہیں اور انکے
والد حضرت سائب غزوہ بدر کے موقع پر اسلام لائے اور یہ حضور کے چچازاد
بھائی تھے ۔
ولادت وتعلیم ۔
غزہ کے مقام پر ۱۵۰ھ میں آپکی ولادت ہوئی ، کہتے ہیں خاص اس دن جس دن امام
اعظم کا وصال ہوا ۔
آپکی والدہ حضرت فاطمہ بنت عبداللہ محض ہیں حضرت حسن مثنی کی پوتی اور
سیدنا امام حسن کی پرپوتی تھیں ۔ ۔
آپکے والد کا انتقال دوسال کی عمر ہی میں ہو گیا تھا ۔لہذا والدہ ماجدہ آپ
کوصغر سنی میں ہی وہاں سے مکہ لے آئیں اور آپ نے وہیں پرورش پائی ۔
سن تمیز سے ہی علوم وفنون کی طرف توجہ شروع کر دی تھی ، ابتداًء شعر، لغت
اور تاریخ عرب کی طرف توجہ تھی ، ا سکے بعد تجوید قرأت اور حدیث وفقہ کی
تحصیل شروع کی ۔
بارہ سال کی عمر تک پہونچنے سے پہلے مؤطا کو حفظ کر لیا تھا اور ا سکے بعد
امام مالک کی خدمت میں پہونچے اور ان پر مؤطا کی قرأت کی ۔آپ علوم دینیہ
کی طرف اپنے رجحان کا واقعہ
خود اس طرح بیان فرماتے تھے ۔
علم فقہ کی طرف توجہ ۔
ایک دن میں ذوق وشوق سے لبید کے اشعار پڑ ھ رہا تھا کہ ناگاہ
نصیحت آمیز غیبی آواز آئی ، اشعار میں پڑ کر کیوں وقت ضائع کرتے ہو ، جاؤ
جا کر فقہ کا علم حاصل کرو ۔فرماتے ہیں : میرے دل پر اس بات کا بڑ ا اثر
ہوا اور میں نے مکہ جا کر سفیا ن بن عیینہ کی درسگاہ میں حاضری دی تھی ،
انکے بعد مسلم بن خالد زنجی اور پھر مدینہ طیبہ حضرت امام مالک کی خدمت میں
پہونچا ۔
اساتذہ ۔
امام شافعی کا زمانہ حدیث وفقہ کے ائمہ کا نادر المثال دورہے ۔لہذا آپ نے
اس زمانہ کے جلیل القدر محدثین وفقہاء سے اکتساب علم کیا ، بعض کے اسماء یہ
ہیں ۔
امام سفیان بن عیینہ ، امام مالک ، مسلم بن خالد زنجی ، ابراہیم بن سعد
۔اسمعیل بن جعفر، محمد بن خالد جندی ، ہشام بن یوسف صنعانی ، امام محمد
وغیرہم ۔
آپ کے اساتذہ میں جن کا رنگ آپ پر غالب نظر آتا ہے وہ آخر الذکر امام اعظم
ابوحنیفہ قدس سرہ کے شاگرد رشید امام محمد بن حسن شیبانی ہیں ۔کیونکہ امام
شافعی کی والدہ سے آپ نے نکاح کرلیاتھا اوراپنا تمام مال اور کتابیں امام
شافعی کے حوالہ کر دی تھیں ۔امام محمد کی تصانیف کے مطالعہ سے ہی آپ میں
فقاہت کا ملکہ پیدا ہوا ۔اسی فیضان سے متاثر ہوکر امام شافعی نے فرمایا :
جو شخص فقہ میں نام کمانا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہ کے اصحاب سے استفادہ
کرے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے استنباط مسائل اور استخراج احکام کی راہیں ان
لوگوں پر کشادہ کر دی ہیں ۔
نیزفرماتے ہیں ۔
قسم بخدا! مجھے فقاہت ہرگز نصیب نہ ہوتی اگر میں امام محمد کی کتب کا
مطالعہ نہ کرتا۔جس شخص کا فقہ میں مجھ پرسب سے زیادہ احسان ہے وہ امام محمد
بن حسن شیبانی ہیں ۔
تلامذہ: ۔
حدیث وفقہ میں آپکے تلامذہ کی فہرست کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔چند حضرات
یہ ہیں ۔ امام احمدبن حنبل ، امام حمیدی ، سلیمان بن داؤد ہاشمی ، ابراہیم
بن منذر جزامی ، ابراہیم بن خالد ، ابوثور ابراہیم بن خالد ، ربیع بن
سلیمان جنیدی ، حسن بن محمد بن صباح زعفرانی۔
مبارک خواب ۔
امام شافعی فرماتے ہیں :۔
میں نے خواب میں حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو دیکھا کہ آپ نے
مجھے سلام کیا اور مصافحہ فرما کر ایک انگشتری میرے ہاتھ میں پہنائی ۔میرے
عم محترم نے ا سکی تعبیر یوں بیان فرمائی کہ :۔
مصافحہ کرنے کا مطلب ہے کہ تم عذاب سے مامون رہو گے اور انگوٹھی پہنانے کی
تعبیر یہ ہے کہ جہاں تک مولی علی کے نام کی شہرت ہے وہاں تک تمہارانام بھی
مشہور ہو گا ۔
بشارت عظمی ۔
حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث پاک ہے ۔
اللہم اھد قریشا، فان عالمھا یملأ طباق الارض علما۔ الحدیث ۔
الہی قریش کو سیدھی راہ پر چلا ، ان میں ایک عالم ایسا ہو گا جو طبقات زمین
کو علم وعرفان سے بھردیگا ۔
حافظ ابونعیم عبدالملک بن محمد کہتے ہیں : اس حدیث کے مصداق حضرت امام
شافعی ہیں ۔
علم وفضل ۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا :۔
امام شافعی دوسری صدی کے مجدد ہیں جس طرح خلیفہ راشدحضرت عمر بن عبدالعزیز
پہلی صدی کے ۔
نیز فرماتے ہیں :۔
تیس سال سے میری کوئی رات ایسی نہیں گذری جس رات میں امام شافعی کیلئے میں
نے دعانہ کی ۔
حسن بن محمد زعفرانی کہتے ہیں : ۔
جس طرح علماء یہود میں حضرت عبداللہ بن سلام منفرد تھے اسی طرح علماء اسلام
میں امام شافعی منفرد ہیں ۔
شمائل وخصائل ۔
امام شافعی طبعا فیاض تھے ، اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دیتے
، بے حد غیور اور خود دارتھے ، اہل جاہ وحشم اورارباب ثروت واقتدار سے کبھی
کسی چیز کی طمع اورتوقع نہ رکھتے ، ا سکے ساتھ بےحد خلیق اور بامروت تھے
۔اگر کوئی شخص کبھی محبت اور عقیدت سے کوئی نذرانہ پیش کرتا توا سکو رد
نہیں کرتے ، تاہم فیاضی طبع کی بنیاد پر ا سکو پاس رکھتے بھی نہیں تھے ،
بارہا ایسا ہواکہ آپ خلیفہ ہارون رشید کی دعوت پر دربار میں گئے ، اس نے
اشرفیوں کی تھیلیاں نذرانہ کیں اور آپ واپسی میں دونوں ہاتھوں سے ان
اشرفیوں کو تقسیم کرتے ہوئے چلے گئے ، یہاں تک کہ جب گھر پہونچے تو آپ کے
پاس اس نذرانے میں سے ایک درہم بھی نہیں تھا ۔
امام حمیدی فرماتے ہیں :۔
امام شافعی جب صنعاء سے مکہ مکرمہ آئے تو آپ کے پاس دس ہزار دینار تھے ۔ آپ
نے ایک جگہ خیمہ نصب کر کے قیام فرمایا ۔لوگوں کو پتہ چلا تو مختلف اطراف
سے بے شمار لوگ ملاقات کیلئے حاضر ہوئے جن میں بہت سے لوگ ضرورت مند بھی
تھے ، جب آپ لوگوں کی ملاقات سے فارغ ہوئے تو آپ کے پاس ایک دینار بھی باقی
نہیں تھا ۔
مزنی کہتے ہیں :۔
میں نے امام شافعی سے بڑ ھکر کوئی فیاض شخص نہیں دیکھا ، ایک شب میں ان کے
ساتھ مسجد سے انکے گھر تک آیا ، میں کسی شرعی مسئلہ میں ان سے گفتگو کر رہا
تھا کہ اتنے میں ایک غلام آیا اور کہنے لگا : میرے آقا نے آپ کو سلام کہا
ہے اور یہ تھیلی نذرکی ہے ، آپ نے تھیلی رکھ لی ، تھوڑ ی دیر بعد ایک شخص
آیا اور اس نے کہا : میری بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے اورہمارے پاس کچھ
نہیں ، آپ نے وہ تھیلی اٹھا کر اسے دیدی ۔
زھدوتقوی ۔
علمی وجاہت اور فقہی متانت کے ساتھ عبادت وریاضت اور زھدوتقوی میں بھی
امتیازحاصل تھا ۔ بعض واقعات تو خرق عادت اور کرامت معلوم ہوتے ہیں ۔
ربیع بن سلیمان کہتے ہیں :۔
امام شافعی رمضان کے نوافل میں ساٹھ مرتبہ قرآن عظیم پڑ ھتے تھے ، عام ایام
میں وہ رات کے تین حصہ کرتے ، پہلے حصہ میں تصنیف وتالیف ، دوسرے میں نوافل
اور تیسرے میں آرام فرماتے ۔
ابراہیم بن محمد کا قول ہے :۔
میں نے امام شافعی سے عمدہ کسی شخص کو نماز پڑ ھتے نہیں دیکھا۔آپکی نماز
مسلم بن خالد کی نماز کے مشابہ تھی ، اور انکی مسلم بن جریج کی نماز کے
مماثل ، اور انکی عطاء بن ابی رباح ، اور انکی عبداللہ بن زبیر ، اور انکی
ابوبکر صدیق ، اور انکی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نماز کے
مماثل تھی ۔
خوف الہی اور خشیت ربانی سے لرزہ براندام ہوجاتے تھے ۔
تصنیف وتالیف ۔
امام شافعی کی زندگی کا اکثر حصہ درس وتدریس ، علمی مباحث ، مسائل کے
استنباط اورافتاء وغیرہ میں گذرا، ا سکے باوجود آپ نے مختلف موضوعات پر
تصنیف وتالیف کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔
عبد الرحمن بن مہدی نے امام شافعی سے عرض کیا کہ میرے لئے کوئی ایسی کتاب
تصنیف فرمادیں جس میں قرآن عظیم کے معانی معتبرہ ، احادیث اور ان کے ساتھ
اجماع اور ناسخ و منسوخ کا بھی بیان ہو ۔ آپ نے عنفوان شباب میں کتاب
الرسالہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو مذکورہ بالا تمام مقاصد پرمشتمل تھی۔
فن حدیث میں امام شافعی کی روایات کو کتاب الام اور کتاب المبسوط میں ان کے
تلامذہ نے جمع کیا ہے ، لیکن جو کتاب امام شافعی کی روایات کی جامع ہے وہ
مسند شافعی ہے ۔
یہ کتاب ان احادیث مرفوعہ کا مجموعہ ہے جنہیں امام شافعی خود اپنے تلامذہ
کے سامنے بیان کرتے تھے ۔ امام شافعی کی بعض روایات کا ابوا العباس محمد بن
یعقوب اصم نے ربیع بن سلیمان مرادی سے سماع کر کے ان کو کتاب الام اور
مبسوط کے ضمن میں جمع کر دیا تھا ۔ ابو العباس اصم نے ان تمام روایات کو
ایک جگہ جمع کر کے مجموعہ کا نام مسند شافعی رکھ دیا ہے ۔
وصال : ۔
مزنی کہتے ہیں جب امام شافعی کے وصال کا وقت قریب آیا تو میں ان کی خدمت
میں حاضر تھا ، میں نے عرض کیا: کیا حال ہے ؟ فرمایا : دنیا سے کوچ اور
احباب سے جدائی کا وقت ہے ، موت کا پیالہ پیش ہوا چاہتا ہے اور نتیجہ اعمال
نکلنے والا ہے ، عنقریب اللہ رب العزت کے دربار میں حاضری ہو گی ، کون جانے
کہ میری روح کدھر لیجائی جائے گی ۔
آپ اس وقت وجد کی حالت میں یہ شعر پڑ ھ رہے تھے ۔
تعاظمنی ذنبی فلما قرنتہ ٭ بعفوک ربی کان عفوک اعظما۔
میرے گناہ بہت بڑ ے ہیں لیکن میں تیری رحمت کی طرف نظر کر تا ہوں تو وہ
میرے گنا ہوں کی نسبت کہیں زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔
آپ کا وصال ۳۰ رجب ۲۰۴ ھ شب جمعہ بعد نماز مغرب ہوا اور مزار مبارک مصر کے
شہر قرافہ میں ہے ۔ (تہذیب التہذیب۔ا البدایۃ والنہایہ۔ تذکرۃ المحدثین) |