اسلام میں خاوند کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت اور فضیلت دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت سے پیدائشی طور پر قوی ہے زیادہ ذہنی قوت کا مالک ہے ۔عورت کی نسبت زیادہ انتظامی صلاحیتیں رکھتا ہے ۔اپنے آپ کو محنت و مشقت میں ڈال کر مال کما کر عورت پر خرچ کرتا ہے ان خوبیوں کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے ۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم یوں ارشاد فرمائی ہے ۔وَلِرِّجَالَ عَلَیھِنَّ دَرَجَة۔”مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔“(سورةالبقرہ )

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ترجمہ”مرد عورتوں پر حاکم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ۔اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ،پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں اپنی حفاظت اور نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاﺅ اور ان سے الگ سوﺅ اور انہیں مار کی سزا دو ،پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ بڑا بلند اور بڑی بڑائی والا ہے ۔“(سورة النساء)

اس آیت میں مرد کی فضیلت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مرد اپنی کمائی سے عورت کی ہر لحاظ سے کفالت کرتا ہے اور اس پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کرتا ہے اسے بیرونی طاقتوں کے ظلم و ستم سے بچاتا ہے ۔اس لئے اسے برتری حاصل ہے ۔

قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا ہے ۔ترجمہ ”اے لوگوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے دئے کہ آپس میں پہچان رکھو بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ (سورة الحجرات)

اس کی تائید میں عورتیں در اصل انسانی جنس ہی سے پیدا کی گئی ہیں اور مردوں کی دل جوئی کے لئے بنائی گئی ہیں تاکہ مردوں کو ان سے محبت و سکون حاصل ہو ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے آرام پاﺅ اور تم میں محبت و مہربانی پیدا کی۔“(سورة الروم )

مندرجہ بلا آیاتِ قرآنیہ سے واضع ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے ۔ذیل میں کتاب و سنت کے مطابق خاوند کے حقوق ذکر کئے جاتے ہیں۔

اطاعت :بیوی پر خاوند کا سب سے پہلا اور بنیادی حق یہ ہے کہ بیوی خاوند کی خدمت گزار اورہر جائز معاملے میں خاوند کی اطاعت شعار ہو ۔اور یہی اس کے نیک ہونے کی دلیل ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیک عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ نیک بیبیاں مردوں کا کہنا مانتی ہیں ۔(سورة النساء)

فرمانبردار عورت کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے بھی ارشادفرمایا ہے کہ :”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے ،رمضان کے روزے رکھے ،اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کا حکم مانے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے اندر داخل ہو جائے ۔اِسے ابو نعیم نے حلیہ میں روایت کیا ہے ۔“

حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں عورتوں کا تذکرہ ہوا تو آقا دو عالم ﷺ نے فرمایا حاملہ، بچہ جننے اور دودھ پلانے والی ،اپنی اولادوں پر مہربانی کرنے والی عورتیں اگر اپنے شوہر کی نافرمانی نہ کریں تو ان میں جو نماز پڑھنے والی ہیں وہ جنت میں داخل ہو گی ۔“(کتب احادیث)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مہاجرین و انصار کی ایک جماعت میں جلوہ افروز تھے تو ایک اونٹ نے حاضر بارگاہ ہو کر آپ ﷺ کو سجدہ کیا ۔آپ ﷺ کے اصحاب عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ ﷺ! آپ کے لئے چار پائے اور درخت بھی سجدہ کرتے ہیں لہٰذا ہمارا زیادہ حق ہے کہ آپ کے لئے سجدہ کریں ۔حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو تمہارا رب ہے اور اپنے بھائی کی عزت کرو ۔اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے ۔اگر وہ اُسے زرد پہاڑ سے کالے پہاڑ کی طرف اور کالے پہاڑ سے سفید پہاڑ کی طرف لے جائے تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ اس کے حکم کی تعمیل کرے ۔“(احمد)لہٰذا مذکورہ حدیث مبارک سے پتہ چلا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز نہیں۔یہی عقیدہ اہلسنت ہے ۔

”ایک شخص سفر پر روانہ ہوا اور اس نے اپنی بیوی سے عہد لیا کہ وہ اوپر سے نیچے نہ اتر،اس کا باپ نیچے رہتا تھا وہ بیمار ہو گیا ،اس عورت نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آدمی بھیج کر باپ کے پاس جانے کی اجازت طلب کی ،حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے خاوند کی اطاعت کر ،پھر وہ مرگیا اور عورت نے پھر اجازت طلب کی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اپنے خاوند کی اطاعت کر ،اس کے باپ کو دفن کر دیا گیا اور حضور اکرم ﷺ نے اسے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خاوند کی اطاعت کی وجہ سے اس کے باپ کو بخش دیا ہے ۔“(کتب احادیث)

”حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گی۔“(ترمذی)

حق زوجیت:مرد کی نفسانی خواہشات کو پورا کرنا عورت کا فرض ہے یعنی بیوی خاوند کی خواہش کے مطابق اس کا حقِ زوجیت ادا کرے اور دلی طور پر اپنے خاوند سے محبت رکھے کیونکہ بیوی کی محبت ہی باقی تمام حقوق کی ادائیگی کا سبب بنتی ہے اگر عورت کے دل میں اپنے مرد کے لئے محبت نہ ہو تو پھر مرد کی زندگی تلخ ہو جائے گی ۔جس سے زندگی کی رعنائی اور سکون ختم ہو جائے گا اس لئے میاںبیوی میں محبت کا ہونا ضروری ہے ۔

روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے بلائے تو عورت کو اس کا حکم ماننا چاہیے اگر چہ وہ کھانا پکانے میں مشغول ہو۔(ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بنو خثعم کی ایک عورت حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا میں غیر شادی شدہ عورت ہوں اور شادی کرنا چاہتی ہوں، خاوند کے کیا حقوق ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا بیوی پر خاوند کا یہ حق ہے کہ جب وہ اس کا ارادہ کرے ،اگر اس کے ارادے کے وقت وہ اونٹ کی پیٹھ پر ہو تب بھی اسے نہ روکے خاوند کا یہ بھی حق ہے کہ بیوی اس کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ دے ،اگر اس نے بلا اجازت کچھ دے دیا تو گنہگار ہو گی اور خاوند کو ثواب ہو گا ۔بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے ،اگر اس نے ایسا کیا تو وہ بھوکی پیاسی رہی اور اس کا روزہ قبول نہیں ہو گا اور اگر گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نکلی تو جب تک وہ واپس نہ ہو جائے یا توبہ نہ کرے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ۔یہی بات ایک اور حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ہم بستر ہونے کے لئے بلائے اور وہ انکار کر دے اور شوہر اس کے انکار سے رات بھر غصے میںرہے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں ۔(بخاری شریف)

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف و اذیت دیتی ہے تو اس کی جنت والی بیوی یعنی بڑی آنکھوں والی حور کہتی ہے خدا تجھ کر برباد کرے تو اپنے شوہر کو نہ ستا وہ تیرا مہمان ہے جو جلد تجھ سے جدا ہو جائے گا اور ہمارے پاس آجائے گا۔ یعنی بہشت میں ۔(ابن ماجہ)

جو عورت اس دنیا میں اپنے خاوند کو ستائے اور اذیت پہنچائے تو آخر ت میں اس کی بخشش نہ ہو گی اور وہ دوزخ میں جائے گی اور اس کی جگہ جنت میں بڑی آنکھوں والی حور اس کی ساتھی بن جائے گی۔

تحفظ گھر:شوہر کا ایک حق یہ ہے کہ اس کی بیوی اس کے گھر اور مال و اسباب کی نگہداشت کرے ۔حدیث شریف میں ہے کہ جب شوہر باہر کہیں جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی گھر بار اور ہر امانت کی حفاظت کرے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی کون سی عورت بہتر ہے ؟فرمایا کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو خوش کر دے جب حکم دے تو تعمیل کرے اور جان و مال میں اُس کے خلاف نہ کرے جو اُس کونا پسند ہو ۔(نسائی شریف)

بیوی پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ خاوند کے مال کو ضائع نہ کرے بلکہ اس کی حفاظت کرے ۔اس لئے والدین کا فرض ہے کہ وہ لڑکی کی بہترین تربیت کریں ،اسے ایسی تعلیم دیں جس سے وہ عمدہ رہن سہن اور خاوند سے بہتر برتاﺅ کے آداب سیکھ جائے ۔

گھر کی نگہبانی میں یہ امر بھی شامل ہے کہ بیوی امور خانہ داری میں دلچسپی لے اور اس سلسلہ میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہا کی زندگی کو اپنے لیے مشعل راہ بنائے ۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ہاتھوں سے نبی کریم ﷺ کے کپڑے دھوتیں اور سر مبارک میں تیل لگاتی تھیں اور گھر کا تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔

حضر ت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گھر کا تمام اندرونی کام کاج کھانا پکانا ،چکی پیسنا ،کپڑے دھونا ،گھر میں جھاڑ و دینا وغیرہ سب ہماری مادر گرامی (حضرت سیدہ فاطمة الزہراءرضی اللہ عنہا)خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں ۔اور انہی کاموں کے درمیان ہماری ضرورتیں دو ا پلانا ،نہلانا ،کپڑے بدلوانا وقت پر پورا کرتی جاتی تھیں ،پھر خاتون جنت رضی اللہ عنہاکا یہ بھی اصول تھا کہ خواہ دو وقت کا فاقہ ہو جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلالیتیں خود ایک دانہ تناول نہ فرماتی تھیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس کو دی گئیں تو اُسے دنیا و آخرت میں بھلائی مرحمت فرمائی گئی ۔شکر ادا کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان ،تکلیفوں میں صبر کرنے والا بدن اور پس پشت اپنی جان و خاوند کے مال میں خیانت نہ کرنے والی بیوی ۔(بیہقی شعب الایمان)

ایک روایت میں ہے کہ اسماءبنت خارجہ انفرادی نے اپنی بیٹی کی شادی کے وقت اسے کہا ،اب تم اس نشیمن سے نکل رہی ہو جو تمہارا ملجاﺅ ماوٰی تھا۔ اب تم ایسے بستر پر جارہی ہو جس سے تم نے کبھی بھی الفت نہیں کی تو اس کی زمین بن جاوہ تیرا آسمان ہو گا۔ تو اس کا بچھونا بن جاوہ تیری عمارت بن جائے گا۔ تو اس کی باندی بن وہ تیرا خادم ہو گا۔ اس سے کنارہ کش نہ رہنا ورنہ وہ تجھ سے دور ہو جائے گا۔ اس سے دور نہ ہو نا ورنہ وہ تجھے بھول جائے گا ۔اگر وہ تیرا قرب چاہے تو اس کے قریب ہو ،اگر وہ تجھ سے دور ہونا چاہے تو تو بھی دور ہو جا اس کی ناک ،کان ،آنکھ کی حفاظت کرنا تاکہ وہ تجھ سے عمدہ خوشبو کے علاوہ اور کچھ نہ سونگھے ،عمدہ بات کے سوا اور کچھ نہ سنے اور وہ تجھے ہمیشہ خوب صورت ہی دیکھے۔

عورت کو ڈانٹ ڈپٹ اور مارنے کا حق:شریعت نے ایک حد تک مرد کو یہ حق دیا ہے کہ وہ نافرمان اور بدکار عورت کی اصلاح کے لئے اسے مار سکتا ہے ۔مگر پہلے عورت کو زبانی طور پر سمجھانا ضروری ہے ا ور بے جا عورت کو مارنا درست نہیںسورة نساءمیں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جن عورتوں کے بارے میں تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ سر کشی کرنے لگی ہیںتو انہیں سمجھاﺅ اگر نہ مانیں تو ان کے ساتھ سونا چھوڑ دو، اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو پھر انہیں سزا دو ۔اس کے بارے میں احادیث مبارک حسب ذیل ہیں:”حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ تمہاری پابندی میںہیں تم اس کے سوا ان پر کسی بات کا اختیار نہیں رکھتے کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں اگر وہ ایسا کریں تو ان سے اپنا بستر جدا کر لو۔ انہیں مار و مگر اتنی شدت سے نہیں کہ ان کے جسم پر نشان پڑجائیں ۔(ابن ماجہ)

حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں ہو گی ۔ (ابوداﺅد)

لیکن اس حق سے مدد کو نا جائز فائدہ اٹھانا بہتر نہیں ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی بے دردی کی ماردھاڑ سے باز رہنے کو نہایت حکیمانہ انداز میں یوں بیان فرمایا کہ بیوی پر کوڑے برسانے والے کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ عین ممکن ہے ۔اسی دن ڈھلے اسے اس کے بستر پر جانا ہے ،پھر یہ سلوک کس قدر افسوس ناک ہو گا۔لہٰذا اب ان مردوں کو خیال کرنا چاہےے جو عورتوں پر بے تحاشہ ظلم کرتے ہیں۔

گھریلو ماحول کی درستگی:بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ گھریلو ماحول کو خوشگوار رکھے خاوند سے بدکلامی اور بد مزاجی سے پیش نہ آئے ورنہ گھر کا ماحول خراب ہو گا اور خاوند کے لئے بے سکونی کا باعث بنے گا۔ ایسے ہی خاوند کی آمدن کے مطابق بیوی کو سلیقہ شعاری سے کام لینا چاہیے ۔اگر وہ اچھے طریقے سے کام نہیں کرے گی تو خاوند کی نگاہوں سے گرجائے گی ۔پھر آہستہ آہستہ یہ بات نفرت میں تبدیل ہو گی اس طرح گھر کی زندگی بے سکون ہو جائے گی ۔ لہٰذا بیوی کو ان امور کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔

معزز قارئین! آج کے ماحول میں عورت کے ساتھ وہی سلوک جاری ہے جو دور جاہلیت میں روا تھا اور مادر پدر آزاد عورتیں مردوں سے حقوق لینے کے لئے غیار کے طریقہ جاہلانہ کو اپناتے ہوئے سڑکوں پر نکلتی ہیں ۔مگر اپنے حقوق و فرائض سے غافل ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کو سمجھنے کی توفیق دے۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 659083 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Islam Mein Khawand Ke Huqooq - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Islam Mein Khawand Ke Huqooq and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Islam Mein Khawand Ke Huqooq.