للو میاں ڈیوٹی بھگتا کر تھکے
ماندے گھر پہنچے تو گھر میں محلے بھر کے بچوں کا جلسہ عام سا ہوتا پایا اور
صدارت کے فرائض بیگم صاحبہ سنبھالے ہوئے تھیں ۔ تمام لوگ کسی نایاب سی شے
کے گر د گھیرا ڈال کر ایسے کھڑے تھے کہ جیسے مداری کو ئی تماشا دکھا رہا ہو
یا پھر سب مل کر مرغی پکڑ نے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں۔ للو میاں نے سوچا
کہ پہلے کپڑے شپڑے بدل لیے جائیں ، چائے شائے پی لی جائے تو پھر بیگم کے
لتے لیتے ہیں کہ گھر میں دفعہ 144 کے باوجود بغیر اجازت بچوں کا جلسہ عام
منعقد کرانے کا پروگرام کس نے طے کیا تھا۔کمرے میں پہنچ کر للو میاں نے
کپڑے بدلنے کے لیے شلوار اٹھائی تو ا سکی نالیوں میں ناڑا یعنی ازار بند
موجود نہ پاکر بہت دل آزاری ہوئی اور آزردہ سا ہو کر بیگم کو آواز دی کہ
کیا ماجرا ہے۔ موصوفہ نے وہیں سے آواز لگائی کہ پچھلے سال کے لائے گئے تمام
ازار بند ختم ہو چکے ، لہذا اگر بازار بند نہ ہوا ہو تو اور لے آئیے یا پھر
ازار بند کو چھوڑیں بس آج نیکر ہی پہن کر باہر آجائیں۔ للو میاں نے نیکر تو
پہن لی مگر اپنی منحنی جسامت اور پیپسی کی بوتل کی طرح کی ٹانگوں کی وجہ سے
شرم سے پانی پانی ہونے سے بچنے کی خاطر محلے کے بچوں کے سامنے نہ جاسکے اور
منہ ہاتھ دھوکر وہیں کمرے میں ہی فراش ہورہے کہ بیگم چائے لاتی ہی ہوگی تو
پی کر ایک ہی بار نکلیں گے ۔ مگر آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد بھی نہ چائے آئی
اور نہ اسکی کوئی اطلاع۔ للو میاں نے بیگم کو پھر آواز لگائی تو جوابی آواز
سماعت سے کچھ یوں ٹکرائی کہ آج چائے نہیں ملیگی، دودھ کہیں اور کام آگیا ہے؟؟۔
للو میاں بیچارے نے غصے میں پاﺅں پٹخے اور اپنی ٹانگیں کسی ماڈل کی طرح
لہراتے با ہر آئے توکیا دیکھا کہ بڑے منے نے اپنی ایک دیرینہ خواہش نا تمام
پوری کرتے ہوئے کہیں سے ایک عدد کتے کا پلا گھر میں پال لیا ہے اور پورے
گھر والے بشمول محلے کے تمام بچے اسی عجوبہ روزگار کا دیدار کرنے اور اسکی
خاطر مدارت میں مصروف ہیں۔للو میاں کا ناڑا مطلب ازار بند ا س پلے موصوف کی
گردن میں زنجیر کا کام دے رہا تھا اور میاں کی چائے کا دودھ وہ صاحب بڑے
مزے لے لے کر نئی نکور پیالی میں ڈکار رہے تھے۔ للو میاں نے فورا بیگم کو
یہ بچکانہ دربار برخواست کرنے کے آرڈر جاری کیے اور میدان صاف کراتے ہی کون
لایا، کیوں لایا، کہاں سے آیا، کہاں سے پایا، کس کی ہمت ہوئی وغیرہ وغیرہ،
سارے سوالات بیگم اور بچوں کو اکھٹے ہی داغ دیے۔ پہلے تو بیگم اور بچے کچھ
گھبرائے مگر پھر بیگم نے آستینیں اور ناک دونوں اکٹھی چڑھا کر جواب دیا کہ
بچوں کا شوق تھا، لے آئے، اب کیا ا س بیچارے کو گھر سے نکال دیں، وغیرہ
وغیرہ۔ اور ساتھ ساتھ اس کتے کے پلے کے اوصافِ حمیدہ بھی ایسے گنوانا شروع
کر دیے جیسے کہ لیڈی ڈیانا کی خوبیاں گنوا رہی ہوں مثلا: کہ دیکھیں کلر
کتنا پیارا ہے، کان کیسے خوبصورت ہیں، بال کتنے پیارے ہیں، آنکھیں دیکھو تو
ذرا، بلکل رشین ڈوگ لگتا ہے، ہیں نا، مزید یہ کہ ذرا بڑا ہو جائے تو اسے
کتوں کی کیٹ واک میں بھی حصہ دلائیں گے اور فائدے دیکھیں کہ رات میں ہماری
رکھوالی بھی کیا کریگا۔ چور اچکے تو پاس سے بھی نہ پھٹک پائیں گے۔ وغیرہ
وغیرہ ۔ماں کو پھیلتا دیکھ کر بچوں نے بھی ہمت پکڑی اور سارے گھر کے بچوں
نے للو میاں کے خلاف اور کتے کے پلے کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔اب
تمام گھر والے ایک طرف اور للو میاں بیچارے دوسری طرف۔ للو میاں نے لاکھ
کہا کہ موصوف کا گھر میں رہنا شرعی اور معاشی حساب کتاب سے ٹھیک نہیں کہ
ایک اور خرچہ بڑھ جائیگا ، بجٹ آؤٹ ہو جائیگا، مگر بیگم کے تیور ، بچوں کا
مزاج اور گھر میں غدر مچنے کے امکان کے پیشِ نظر للو میاں کو بھی اس کتے کے
پلے کو مجبورا اپنے گھر کا ایک فرد تسلیم کر نا پڑا۔
کھانے میں اس روز گوشت کی باری تھی مگر دال دیکھ کر للو میاں صاحب کے ہوش
اڑگئے اور پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ تو کب کا اس پلے میاں کی نذر ہو چکا ہے۔
میاں صاحب نے سر پیٹ لیا کہ بڑی مشکل سے ہفتے میں ایک بار تو پاﺅ بھر گوشت
پکا پاتے ہیں اور وہ بھی اس پلے کی نظر ہو گیا ۔ مزید انکوائری پر بیگم
صاحبہ گویا ہو ئیں کہ کیا ہوا اگر اس ہفتے گوشت نہیں کھایا اگلے ہفتے صحیح،
ویسے بھی بچے گوشت کھاتے ہی کب ہیں، ہر بار ایک پلیٹ تو پھینکنی ہی پڑتی
ہے۔ کتے کے پلے کے آنے سے کم از کم یہ پلیٹ ضائع تو نہیں ہو اکریگی۔ للو
میاں نے مزید پوچھا کہ چائے کی پیالی ان صاحب کو کیوں لگا کر ناپاک کرائی؟
کسی پرانے گھی کے ڈبے یا کسی ٹوٹے پھوٹے برتن یا لوٹے میں دودھ پلا دیتیں،
تو جواب ملا کہ وہ تو میں ٹین ڈبے والے کو دے چکی آپ اور لے آ ئیے گا، کہ
اب سلور یا سٹیل کے برتن تو خراب کر نے سے رہے۔ اور مزید حکم صادر ہوا کہ
کل سے اضافی آدھا کلو دودھ اس کتے کے پلے کا بھی آیا کریگا اور کبھی کبھار
اس خوش قسمت کو کھیر اور کسٹرڈ بھی کھلایا جایا کریگا اور گوشت تو ہے ہی
مسٹ۔للو میاں نے اپنی قسمت پر کفِ افسوس ملتے ہوئے بیگم سے پوچھا کہ ہمیں
توآپ نے پچھلے چھ ماہ سے مذکورہ ناپید اشیاءنہیں کھلائیں تو یہ مہربانی اس
پلے پر ہی کیوں؟ تو بولیں کہ یہ تو بیچارہ بے زبان جانور ہے اسکی خدمت کرنا
ضروری ہے ۔ میاں کو اس ڈوگی کے بچے بیچارے کی قسمت پر رشک آنے لگا اور دل
ہی دل میں بڑبڑایا کہ بیگم کے آگے میاں بھی ہے تو بے زبان جانور ہی
بیچارہ؟۔
اب جناب گھر میں یہ پوزیشن ہوگئی کہ کچھ کھانا ہو، پینا ہو، کوئی پھل فروٹ
ہو ، غرضیکہ کوئی بھی کھانے پینے کی چیز ہو، پہلے کتے کے پلے کو، بعد میں
کسی اور کو حتیٰ کہ آم شام بھی کھا رہے ہوں تو سب ایک دوسرے سے باقاعدہ
پوچھتے کہ آم پلے کو دیا تھا کہ نہیں؟ یہاں تک کہ پیپسی کولا بھی اسے ضرور
پلائی جاتی۔ سوتے ہوئے اسکا ازار بند للو میاں کی چارپائی سے باندھ دیا
جاتا تا کہ پلا محفوظ رہے (میاں نہیں) اور یہ پلے صاحب رات بھر چاں چاں لگا
ئے رکھتے اور للو میاں غریب کی نیند میں خلل ڈلتا۔ پھر ایک روز بیگم موصوفہ
کو ہمدردی سوجھی کہ بیچارہ سارا دن بندھا رہتا ہے اور اسکے رات کے آزادی سے
گھومنے پھر نے کے آرڈر جاری کر دیے ۔ پھر موصوف رات بھر ہر ممنوعہ اور غیر
ممنوعہ اشیاء سونگھتے پائے جاتے ایک بار رات میں میاں کی آنکھ کھلی تو
موصوف بازو میں لیٹے بیگم کی طرح جیب سونگھ رہے تھے جیسے کہ پیسو ں کی تلاش
میں ہوں۔ اور ایک بار منے کا پاﺅں چاٹتے ہوئے پائے گئے۔
پھر جناب! سردی کا موسم آتے ہی بیگم نے یہ کیا کہ بچوں کے نئے سویٹر ،
جرسیاں اور ٹوپے کاٹ پیٹ کر اس پلے صاحب کی بری تیار کردی کہ بے زبان جانور
ہے سردی میں تنگ نہ ہواور بچوں کے لیے نئے جرسی سویٹیرز اور ٹوپے شوپے لانے
کا حکم صادر کر د یا۔ للو میاں غریب نے نئے جرسی سویٹروں کاحال دیکھ کر
اپنا سر پیٹ لیا اور بیگم کو پیٹنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ پچھلی لڑائی دماغ
میں گھوم گئی جب اس معرکہ میں جیت بیگم کی ہی ہوئی تھی اور میاں موصوف کو
ایک ماہ ہڈی جوڑ والے کے درشن کرنے پڑے تھے ۔ غرضیکہ پلے صاحب کے اخراجات
روز بروز بڑھتے جارہے تھے۔ اور للو میاں صاحب اب روزانہ اسے ٹھکانے لگانے
کا سوچنے لگے۔
کتے کے پلے کو گھر سے نکالنے کے لیے ایک روز للو میاں کے ذہن میں ایک ترکیب
آئی جسے انہوں نے رات کی تاریکی میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ۔ رات
گہری ہوتے ہی للو میاں نے بیگم کی پرانی شلوار میں سے ایک اور ناڑا نکال کر
پلے کی گردن میں ڈال کر اسکی رسی لمبی کر کے اسے اغوا کر کے باہر لیجانے کی
کوشش کی، مگر اس نے گلا بھنچنے پر اتنی زور سے چوں چاں شروع کی کہ بیگم
صاحبہ کی آنکھ کھل گئی اور پھر میاں بیوی کی جو سر کس گھر میں لگی وہ تمام
محلے والوں نے رات کے بارہ بجے کے شو میں بغیر ٹکٹ دیکھی۔ خیر جناب! للو
میاں باز پھر بھی نہ آئے اور ایک روز پھر دوسری ٹرائی ماری ایک روز رات کے
پچھلے پہر آخر اپنی کوشش میں کامیاب ہو ہی گئے اور پلے کو پکڑ کر ٹہلاتے
اور بچکارتے ہوئے گلی میں لے ہی آئے۔ مگر گلی میں آتے ہی اسکے دوسرے بھائی
بند اسکی آواز سنتے ہی پتہ نہیں کہاں سے منٹوں میں سیلابی پانی کی طرح
درجنوں جمع ہوگئے اور اپنی اپنی زبان میں باتیں شروع کر دیں، لگتا تھا کہ
للو میاں صاحب کو ہڑپ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ للو میاں صاحب نے اپنی جان
خطرے میں محسوس کرتے ہی فورا پلے سمیت واپس گھر کی راہ لی، یوں اس بار بھی
کامیابی نے قدم نہ چومے۔ پھر ایک روز آخر کار للو میاں کو موقعہ مل ہی گیا
کہ جب بیگم اور بچے سسرال سدھارے تو موقعہ پا کر للو میاں دن دیہاڑے ، خوش
خوش اس پلے کو کئی محلے دور چھوڑ آئے اور گھر آکر سکھ کا سانس لیا۔ مگر یہ
کیا کہ موصوف صبح سویرے ہانپتے کانپتے پھر دروازے پر آن دھمکے۔ اسکے منہ کو
اتنا حرام لگ چکا تھا کہ وہ یہ گھر چھوڑنے کو کسی حال بھی تیار نہ تھا۔ اگر
اس کتے کے پلے کو دودھ نہ ملتا یا ملنے میں دیر ہو جاتی تو بڑے بوڑھوں کی
طرح روٹھ کر بیٹھ جاتا یا پھر گھر میں پالی گئی اکلوتی بکری کے تھنوں پر
حملہ کردیتا۔ اگر گوشت نہ ملتا تو گھر کی کسی بھی جاندار چیز کا گوشت کھانے
کو تیار رہتا۔ تمام گھر والوں کو للو میاں کی اس حرکت کا پتہ چل چکا تھا
لہذا اس واقعے کے بعد تمام گھر وا لے اسکی رکھشا اور زیادہ توجہ سے کرنے
لگے کہ اس ڈوگ کا ایک راکشس بھی اس گھر میں موجود ہے۔
تاہم للو میاں نے ہمت پھر بھی نہ ہاری اور پلے صاحب کو گول کرنے کے چکر میں
لگے ہی رہے۔ پھر آخر کار ایک دوست کے مشورے پر ایک روز موقعہ پا کر پہلے تو
للو میاں نے پتنگ کی ڈور سوتنے والا شریش اس کتے کے پلے کو کھلایا، جس سے
اسکی آواز بند ہوگئی اور پھراسکی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر، آٹے کے خا
لی گٹو میں ڈال کر، کرائے کی سائیکل لیکر ، دس میل دور ایک نہر کے اندر ڈال
آئے اور گھر آکر سکھ کا سانس لیا کہ جان چھوٹی سو لاکھوں پائے ۔ پھر واقعی
وہ کتے کا پلا مڑ کر دوبارہ نہ آیا۔ شاید واقعی گھر کا پتہ بھول گیا تھا۔
یا پھر ۔۔۔؟؟ تا ہم اس واقعے کے بعد گھر بھر میں کئی روز تلک فوتگی کا سا
سماں رہا اور پورا گھر ہی للو میاں صاحب کے خلاف ہوگیا۔ سیدھے منہ بات کرنا
تو د ور کوئی پاس سے گذرنا بھی گوارا نہ کر تا۔اب آپ ہی بتائیے کہ کیا للو
میاں نے اس کتے کے پلے کو ٹھکانے لگا کرغلط کیا ٹھیک ؟؟ |