انا للہ و انا الیہ راجعون
سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں یہ خبر نہایت رنج و غم کے ساتھ سنی جائے گی
کہ اسلام آباد میں مقیم اردو کے ممتاز شاعراور ادیب اکبر حمیدی آج وفات پا
گئے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔اکبر حمیدی زندگی بھرایک تسلسل کے ساتھ
شعروادب کی خدمت میں مصروف رہے۔ان کی پچیس سے زائد کتابیں شائع ہو چکی
ہیں۔ان میں آٹھ شعری مجموعے، انشائیوں کے پانچ مجموعے،خاکوں کے دو
مجموعے،تنقیدی مضامین پر مشتمل دو مجموعے،ریڈیو کالموں کا ایک مجموعہ اور
ان کی خود نوشت سوانح شامل ہیں۔بچوں کے ادب کے حوالے سے انہوں نے پانچ
کتابیں لکھیں،ان میں سے ایک کتاب یونیسکو کے زیر اہتمام شائع کی گئی۔بحیثیت
شاعر،خاکہ نگار اور انشائیہ نگار ان کی ادبی حیثیت کو ہمیشہ اعتبار حاصل
رہے گا۔اکبر حمیدی کی شاعری میں اپنے حق کے لیے احتجاج،مذہبی رواداری پر
اصرار،اور زندگی کے رنگوں سے لطف اندوز ہونے کی مختلف کیفیات ملتی
ہیں۔پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی روش کا کرب ان کے ہاں بہت نمایاں رہا۔
رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں
خود جو نہ بنا ، ان کو بنانے میں لگا ہوں
بہت مشکل ہے ان حالوں میں جینا
مگر میں زندگی پر تُل گیا ہوں
کہیں بھی رہ درودیوار جگمگا کے رکھ
اگر چراغ ہے چھوٹا تو لو بڑھا کے رکھ
ہماری جنگ اندھیروں سے ہے ہوا سے نہیں
دیا جلا کے نہ یوں سامنے ہوا کے رکھ
کچھ سال تو آئین بنانے میں لگے ہیں
باقی کے ترامیم کرانے میں لگے ہیں
کب تلک وقت ٹالنا ہو گا
راستا تو نکالنا ہو گا
اگلی نسلوں کو کفر سازی کے
چکروں سے نکالنا ہوگا
ہم اچھا وقت نہیں لا سکے نئی نسلو!
مگر تمہارے لیے اچھے خواب لے آئے
خاکہ نگاری میں اکبر حمیدی نے معروف و ممتاز ادبی شخصیات کے خاکوں کے ساتھ
قریبی رشتہ داروں کے خاکوں کی روایت کو مستحکم کرتے ہوئے پروان چڑھایا۔بعد
میں بہت سارے لوگوں نے ہلکی پھلکی ترمیم کے ساتھ ان کے انداز میں اپنے رشتہ
داروں کے بارے میں خاکے لکھے۔ انشائیہ نگاری میں انہیں سرگودھا اسکول کی
تائید و رہنمائی حاصل رہی لیکن اکبر حمیدی نے اس میدان میں اپنے لیے نئی
راہیں بھی تراشیں۔
اکبر حمیدی کی زندگی میں ہی ان کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے والوں میں
سید ضمیر جعفری،ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر سید معین الرحمن،ڈاکٹر انور
سدید،شہزاد احمد،ڈاکٹر رشید امجد،منشا یاد،ظفر اقبال،محمود احمد قاضی، ناصر
عباس نیر،سلیم آغا قزلباش،خلیق الرحمن اور متعدد دیگر شعراءو ادباءشامل
ہیں۔اس کے باوجود ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے پیش نظر اہلِ وطن نے ان کا
شایانِ شان اعتراف نہیں کیا۔یہ ناانصافی کھلم کھلا ہوئی ہے اور وجوہات بھی
ظاہر و باہر ہیں۔تاہم میرے نزدیک اکبر حمیدی کی شاعری،خاکے اور انشائیے
بجائے خود ان کے فن کی اہمیت کا احساس دلاتے رہیں گے۔
حیدر قریشی(جرمنی سے)۲۱دسمبر۱۱۰۲ئ |